وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز سید ذوالفقار عباس بخاری نے کہا ہے کہ حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کی زمینوں کو ناجائز قبضوں سے واگزار کرانے کے لیے بہت جلد خصوصی ’فاسٹ ٹریک‘ عدالتوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے جن میں ان کی زمینوں کے معاملات تیس دن کے اندر حل ہو جائیں گے۔
’اردو نیوز’ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ زمینوں پرقبضہ بیرون ملک پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور قبضوں کے بعد یہ معاملات عدالتوں میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتی اور قبضہ چھڑانے کے لیے متاثرین کی مدد نہیں کر پاتی۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب: پاکستانی شکایات میں سب سے آگےNode ID: 452951
-
’بیرون ملک سے آنے والوں کو قرضے فراہم کیے جائیں گے‘Node ID: 495441
-
وزیراعظم سٹیزن پورٹل، بیرون ملک سے دلچسپ شکایاتNode ID: 495526
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سمندر پار پاکستانیوں کے زمینوں کے تنازعات حل کرنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرے گی اور اس سلسلے میں پہلی عدالت جلد اسلام آباد میں کام شروع کر دے گی جس کی کامیابی کے بعد صوبائی سطح پر مزید عدالتیں قائم کی جائیں گی۔
’ہم بیرون ملک (پاکستانیوں) کی ایک فاسٹ ٹریک عدالت بنانے جا رہے ہیں اسلام آباد میں زمینوں کے تنازعات کے حل کے لیے، وہاں جا کر تیس دن کے اندر اندر بیرون ملک پاکستانی اپنی سماعت کر کے اس (مسئلے) کو حل کر لیں گے۔ یہ فاسٹ ٹریک عدالت جب کھلے گی بیرون ملک پاکستانیوں کی جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ اب بہت جلد ہوئے والا ہے۔‘
ذوالفقارعباس بخاری نے کہا کہ ’یہ (عدالت کا منصوبہ) کامیاب ہو جائے گا تو میں چاہتا ہوں کہ ایک پنجاب میں، ایک خیبرپختونخوا میں اور ایک سندھ میں کھولیں، لیکن پہلے ٹیسٹ یہ والی (عدالت) ہو جائے گی، اور یہ (عدالت کا قیام ) بالکل آخری مرحلے پر ہے۔،
ذوالفقار بخاری نے بتایا کہ اس پراجیکٹ کی آخری رکاوٹ صرف بیرون ملک پاکستانی کی سرکاری تعریف کی وزارت قانون سے منظوری ہے، جو کہ اگلے ہفتے ہو جائے گی۔ اس کے بعد اس کی حتمی منظوری کابینہ اور پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے لیے حکومت متعدد ریفارمز اور نئے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جن میں سے ایک جعلی اور دھوکے باز ایجنٹوں کی سرکوبی بھی ہے جو لوگوں کو غلط طور پر بیرون ملک بھیج کر نہ صرف ان کو کم تنخواہوں پر کام اور غیرمعیاری رہائش گاہوں میں قیام پر مجبور کرتے ہیں بلکہ ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے ایسے 406 کیسز(معاملات) کارروائی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیج دیے ہیں جب کہ اب تک تیس پاکستانی ایجنٹوں کے لائسنس کابینہ کے ذریعے منسوخ کیے جا چکے ہیں اور متحدہ عرب امارات کے اٹھارہ اداروں کو وہاں کی حکومت کی مدد سے بند کروایا جا چکا ہے۔ ‘
’ہم ایک ریفارم بہت جلد لے کر آرہے ہیں کہ ایجنٹس کا کیا کریں، ان کی فیس ڈیپازٹ ہم بڑھا رہے ہیں تاکہ اگر ہمیں کوئی چیز غلط نظر آئے تو ہم ان کا ڈیپازٹ لے لیں، ابھی تو دو تین لاکھ روپیہ ہے، اس سے ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کورونا بحران کے دوران دوسرے ملکوں کے بے روزگار ہونے والے لاکھوں لوگوں کے مقابلے میں صرف پچپن ہزار کے قریب بیرون ملک پاکستانی بے روزگار ہوئے ہیں۔
’بے روزگار جو نوکری سے نکالے گیے ہیں وہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی پچاس پچپن ہزار لوگ واپس آئے ہیں۔ (کل) لوگ جتنے واپس آئے ہیں تین لاکھ کے قریب ہیں۔ یہ تعداد مزید بڑھے گی، اس میں کوئی شک نہیں لیکن ابھی تک یہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ پچاس ہزار کے قریب وہ لوگ واپس آئے ہیں جو چھٹی پر تھے جب کہ ایک لاکھ لوگ ایسے ہیں جو پہلے چھٹی پر تھے اور کورونا کی وجہ سے کام پر واپس نہیں جا سکے۔
ذوالفقارعباس بخاری نے کہا کہ ’جو بہت قریب سے ہم نے فالو کرنا ہے، وہ یہ پچاس ہزار جو چھٹی پر ہیں اور ایک لاکھ جنہوں نے واپس جانا ہے کہ ان دونوں کی نوکریاں ختم نہ ہوں۔'
ایک سوال کے جواب میں ذوالفقار بخاری نے کہا کہ ان سے پہلے سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کرپشن کا گڑھ تھی اور انہوں نے اس کو ایک ناکام ڈویژن سے بدل کر کامیاب اور سرگرم ترین محکمہ بنا دیا ہے۔
’جو یہ وزارت تھی اس میں سب سے زیادہ، سب سے زیادہ نہیں تو بہت زیادہ کرپشن ہوتی تھی۔ یہ ایسی ایک چھپی ہوئی وزارت تھی جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ کون ہے، بلکہ آپ جو بھی منسٹرز یہاں رہے ہیں آپ کو پتا ہی نہیں ہیں ان کے نام، لیکن یہاں کیونکہ ای او بی آئی تھا، او پی ایف تھا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف تھا اس میں کافی فنڈز تھے، تو اس میں کرپشن بھی ہوئی تھی، خورشید شاہ، گوندل، یہ سارے نام آتے ہیں جنہوں نے کی ہوئی تھی۔'
انہوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے او پی ایف سوسائٹی کا گیارہ سالہ پرانا مسئلہ حل کر دیا ہے اور عید کے فوراً بعد اس کے فیز فائیو میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی زمین ان کے حوالے کر دی جائے گی۔
ذوالفقارعباس بخاری کے مطابق ’او پی ایف (سمندر پار پاکستانیوں کی فاؤنڈیشن) ایک نقصان دیتا ہوا ادارہ تھا۔ اس کو آٹھ مہینے کے اندر اندر ہم منافعے پر لے کر آئے ہیں۔ او پی ایف کے، اس کے کچھ دس گیارہ سال پرانے مسئلے تھے قبضوں کے، سوسائٹیز کے (زمینوں کے) قبضوں کے، جو ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ اس مہینے وہ ختم ہو جائیں گے۔ اور ہم جونہی عید کی چھٹیاں ختم ہوں گی ہم لوگوں کو فیز فائیو او پی ایف (سوسائٹی) کا قبضہ دے دیں گے، یہ گیارہ سال پرانا اٹکا ہوا پراجیکٹ تھا۔‘
ذوالفقار بخاری نے انکشاف کیا کہ سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ان کی باقاعدہ آزمائش کی اور وزیر تجارت رزاق داؤد سے بھی ان سے اس موضوع پر سوالات کروائے اور ان دونوں کے مطمئن ہونے کے بعد ہی انہیں یہ قلمدان ملا۔
’مجھے یہ وزارت چاہیے تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ میں اس میں سب سے زیادہ فٹ ہو سکتا ہوں۔ میں یہ چاہتا تھا تو پی ایم صاحب نے بولا مجھے پریزینٹ کرو کہ کیا ہے (بریفنگ دو کہ کیسے کرو گے) یہ نہیں ہے کہ انہوں نے آ کے مجھے بولا کہ لے لو، انہوں نے بولا کہ مجھے بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو، تو پھر میں نے دو تین دن، چار دن لگا کے پوری پریزینٹیشن دی کہ یہ یہ چیزیں ہیں اس میں، اور یہ یہ میں کرنا چاہتا ہوں۔ تو انہوں نے پریزینٹیشن پاس کی، بلکہ اس کے بعد انہوں نے میرا ایک انٹرویو کروایا رزاق داؤد صاحب سے، ایک انٹرویو ہوا اس میں وہ بھی تھے رزاق داؤد بھی، تو میں نے اپنی پریزینٹیشن وہاں بھی آگے رکھی، تو دونوں ایک طریقے سے مطمئن تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صرف دو سال کے عرصے میں انہوں نے اپنا انتخاب درست ثابت کردیا ہے اور پانچ سال گزرنے پر ان کے سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں تصور کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنا دیا جائے گا۔
’میں ابھی دبئی گیا ہوا تھا تو یو اے ای نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارا سکلڈ لیبر وہاں 29 فیصد بڑھا ایک سال میں، تو یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا ویژن تھا کہ ای او بی آئی میں ایک پینشن فنڈ ہے لیکن یہ محدود ہے، محدود اس لیے ہے کہ یہ بنیادی طور پر جو فارمل اکانومی ہے، فارمل ایمپلائمنٹ ہے اس کے لیے ہے اولڈ ایج پینشن۔ میرا ویژن اس کے لیے یہ ہے جو میں انشاء اللہ بہت جلد پہنچ جاؤں گا اس پر عمل درآمد کے لیے، کہ میں اس میں انفارمل ایمپلائمنٹ بھی اس کے اندر لے کر آؤں گا اور اس کے اندر میں چاہتا ہوں گا کہ ہمارے اوورسیز پاکستانی ورکر بھی اس کے اندر آئیں۔‘
’ای او بی آئی کی پینشن 5,250 پر شروع ہوئی تھی جب ہم نے لی تھی گورنمنٹ، آج وہ 8,500 پر ہے۔ تو یہ اٹھارہ مہینوں میں ہوا ہے۔ اور اس کا مقصد ہمارا یہ ہے کہ انشا اللہ ہماری مدت ختم ہونے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ جو پینشن کم سے کم اجرت کے برابر ہو، یہ ہمارا مقصد ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے نو لاکھ ستر ہزار بندہ باہر بھیجا ہے۔ جو ایک ریکارڈ ہے، ایک ملین بندہ باہر بھیجنا۔ وہ بھی ان میں سے 29 فیصد ہنرمند تھے یو اے ای کے لیے۔'
’ہم نے نئے ملک کی طرف دیکھا ہے، جاپان کی طرف، معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جاپان ہم افرادی قوت بھیجیں گے، جرمنی کی طرف ہم دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تین ملین یورو کا ہم نے ایک ری اینٹیگریشن گرانٹ سائن کی ہے کہ جو پاکستانی واپس آ رہے ہیں ان کو معاشرے میں دوبارہ کیسے شامل کریں۔ ان کو چھوٹے قرضے دیں کاروبار کے لیے یا ان کو دوبارہ سے ہنر مند بنائیں۔ ہم نے لوگوں کو رومانیہ بھیجنا شروع کیا، ہمارے کوئی دو تین ہزار لوگ وہاں گئے ہیں وہاں پر، جنوبی کوریا میں بڑھائے (لوگ بھیجنے)، 206 فیصد سعودی عرب میں ہمارا اضافہ ہوا ہے (لوگوں کا)۔‘
انہوں نے بتایا کہ اٹلی میں بھی عنقریب تین سے چار ہزار تک پاکستانی قانونی طریقے سے کام شروع کر دیں گے کیونکہ وہاں کی حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں