تحریک انصاف کا نصابی اصلاحات کا وعدہ اب تک پورا نہیں ہوسکا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے پہلے دو سال عام طور پر انتہائی پرخطر ہوا کرتے ہیں، ویسے تو ہمارے ہاں پانچ سالہ حکومت ہی اس سوال کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے کہ کیا وزیراعظم اور کابینہ اپنی مدت پوری کر پائیں گے یا نہیں۔
لیکن بہرحال ابتدائی دو سال، سمت کے تعین اور فیصلہ سازوں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی کی مناسبت سے کلیدی سمجھے جاتے ہیں۔ دو سالہ کارکردگی کو پرکھنا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ حکومتیں سخت اور بہادر فیصلے شروع میں ہی کر جایا کرتی ہیں، اس کے بعد سیاسی کیپیٹل گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور اگلے الیکشن کے قریب تو بالکل ہی پاپولر فیصلے کرنا پڑ تے ہیں۔
24 ماہ کے اختتام پر، تحریک انصاف اور خان صاحب کی مدت وزارت عظمیٰ مکمل نہ کرنے کا ویسے تو کوئی بھی ظاہری سیاسی جواز نظر فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔ ہمدرد فیصلہ ساز، تقسیم شدہ اور کمزور میڈیا، بے بس اور کنفیوژ اپوزیشن۔۔۔۔ وہ تمام سپیڈ بریکرز جو جمہوری سفر کی رفتار توڑنے کے لیے کسی بھی حکومت کی راہ میں حائل ہوتے ہیں وہ بظاہر موجودہ سیٹ اپ کے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہیں۔ اگر کوئی سیریس چیلنج ہے تو وہ تحریک انصاف کو اپنی پرفارمنس کا ہی ہے۔
پرفارمنس کا ذکر ہو تو سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا تعین آخر کیا کیسے جائے؟ اور بات پی ٹی آئی کے موجودہ دور تک ہی موقوف نہیں، موجودہ گورننس کا پہلے حکومتوں سے موزانہ کیسے کیا جائے؟ کیا معاشی اور سماجی اعشاریے استعمال کیے جائیں یا پھر عوام کے اطمینان کو مدِنظر رکھا جائے؟ اور پھر پارٹی کے دورانِ الیکشن اپنے وعدے اور منشور بھی تو ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر حکومت کو پرکھا جا سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ کوئی بھی دو حکومتیں ایک جیسے حالات میں اقتدار میں نہیں آتیں۔ معاشی اعداد و شمار کا الزام آسانی سے پچھلی حکومتوں پر دھرا جا سکتا ہے جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل اور ان کے حل کے پس منظر میں کئی طرح کی توجیہات دی جا سکتی ہیں۔
ایک بات مگر طے ہے کہ حکومتوں کے دو چار نمایاں اور یاد رہنے والے کام ہی عوامی ذہن میں نقش ہوجایا کرتے ہیں- کچھ منصوبے حکومتوں کی پہچان بن جاتے ہیں جن کا وہ ہر الیکشن کیمپین میں کریڈٹ لیتے ہیں۔ پرویز الہٰی کی حکومت آج بھی 1122، ہائی وے پیٹرولنگ، ٹریفک وارڈن کا نیا نظام اور انڈر پاسز کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔ وفاق میں 2008 میں اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو دیکھا جائے تو اٹھارہویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، خیبر پختونخوا کا نام اور گلگت بلتستان میں آئینی اصلاحات ان کے کریڈٹ پر ہیں۔
ن لیگ آج بھی موٹر وے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، بین الصوبائی سڑکوں کے جال پر اتراتی ہے۔ سی پیک منصوبے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں ہی اپنا اپنا کریڈٹ جتاتی ہیں۔ خود پی ٹی آئی کی اپنی خیبر پختونخوا میں پہلی حکومت کو پولیس میں اصلاحات اور تعلیم اور صحت میں بہتری پر شاباش ملتی رہی ہے۔
اب اگر پچھلے دو برسوں کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی کی کارکردگی کے لیے دو میدان ہیں، پنجاب اور وفاق۔ دونوں میں ہی یہ احساس نمایاں ہے کہ حکومت ابھی تک اپنی ترجیحات اور ٹارگٹس کا تعین نہیں کر سکی ہے۔ یہاں تک کہ اقتدار کے ریلے ریس میں کونسا وننگ کمبینیشن انہیں فنش لائن کے اس پار پہنچائے گا اس کے بارے میں خود جماعت کے اندر سے وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جس کی سب سے واضح مثال عثمان بزدار کی ہے۔
کیا بزدار کے کندھوں پر پنجاب کی حکومت پانچ سال تک چھوڑی جائے گی، اس بات کی کوئی بھی کلیریٹی نہیں ہے۔
خان صاحب اداروں میں ریفارمز اور احتساب کے واضح ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، اب دو سال بعد تحریک انصاف کے ہمدردوں پر ہی فیصلہ چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان دو وعدوں پر عمل درآمد کےحوالے سے کتنے مطمئن ہیں۔
دو سال بعد اگر حکومت سنجیدہ خود احتسابی کرنے کے موڈ میں ہے تو انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ کارکردگی کے نام پر کچھ ہوگا تو صوبے اور وفاق میں ہر کچھ ہفتے بعد آنے والی تبدیلیاں بھی فراموش ہو جائیں گی اور لوگ یہ بھی بھول جائیں گے کہ کتنے وزیر صحت اور اطلاعات اپنے عہدوں سے ہاتھ دو چکے ہیں اور کتنے چیئرمین ایف بی آر بدلے جا چکے ہیں۔ عثمان بزدار تک کو شاید لوگ قابل قبول سمجھ لیں اگر جنوبی پنجاب کا صوبہ حقیقت کا روپ دھار لے اور اگرپنجاب پولیس کو کوئی ناصر درانی مل جائے۔
ایک بات البتہ حوصلہ افزا ہے کہ اب خان صاحب بھی اعلانیہ طور پر ڈویلپمنٹ پراجیکٹس اور بڑے ٹرانسپورٹ منصوبوں کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔ سنگ بنیاد رکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس میں تازہ ترین پیش کش راوی شہر ہے۔ کیا یہ منصوبہ اس حکومت کی پہچان بن سکے گا؟ اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے گا اور وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔