'آجر اکثر کنٹریکٹ میں لکھی گئی اوور ٹائم تنخواہ کی ادائیگی روک لیتے ہیں۔' فائل فوٹو: عرب نیوز
قطر میں اب بھی کام کرنے والے تارکین وطن کو ان کے آجروں کے ہاتھوں استحصال کا سامنا ہے۔ ان میں نوکری سے نکالے جانے کی دھمکی، تنخواہوں کا روک لینا، تنخواہوں میں کٹوتی اور کچھ کو تو کھانے نہ دینے تک جیسے واقعات شامل ہیں۔
دس سال قبل قطر نے 2022 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا جس کے بعد ملک کے مزدوروں کے لیے بنے گئے قوانین پر تنقید کی گئی تھی۔
تاہم قطر نے عہد کیا تھا کہ ملک میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات میں بہتری لائی جائے گی۔ اس کے باوجود مزدوروں کے ساتھ خراب سلوک برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق غیرسرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ کا پیر کو کہنا تھا کہ آزار آجر اور وہ جو لیبر سپلائی کمپنیز کے ذریعے کام کرنے والے افراد کو نوکری پر رکھتے ہیں وہ اکثر ان افراد کی تنخواہیں روک لیتے ہیں یا اس میں سے کٹوتی کر دیتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے 60 سے زائد کمپنیوں میں کام کرنے والے 93 سے زیادہ تارکین وطن سے بات کی اور ان کی قانونی دستاویزات پڑھیں۔
ادارے کا کہنا تھا کہ آجر اکثر کنٹریکٹ میں لکھی گئی اوور ٹائم تنخواہ کی ادائیگی روک لیتے ہیں اور سروس ختم ہونے پر جو فوائد دینے چاہئیں وہ بھی نہیں دیتے اور تارکین وطن کے ساتھ کیے گئے کانٹریکٹ کی اکثر خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔
قطر میں حکام نے مزدوروں کے حق میں کئی اقدامات لیے ہیں۔ ان کی دیہاڑی بچانے کے لیے ایک طریقہ بھی بنایا گیا جس سے نہ ادا کی جانے والی تنخواہ کا پتا چل جاتا ہے تاہم یہ طریقہ بھی پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔
قطر ایک امیر ملک ہے جہاں 2020 میں بجٹ میں اضافے کا امکان تھا۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث کئی صںعتیں اپنے کارکنان کو تنخواہوں دینے کے قابل نہیں رہیں۔
مارچ 16 کو قطر نے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لیے 75 ارب ریال یا 20.6 ارب ڈالر کا اعلان کیا تھا جس میں سے تین ارب ریال کارکنان کی تنخواہوں کے لیے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ’قطر میں جب سے وبا پہلی بار آئی ہے تب سے یہ زیادتیاں زیادہ دیکھنے میں آرہی ہیں۔‘
کچھ کیسز میں تو کارکنان نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ان کے آجر نے انہیں تنخواہیں دینا روک دیں اور ان کے پاس کھانا کھانے تک کے پیسے نہیں بچے تھے۔
کارکنان کا مزید کہنا تھا کہ آجر اور ان کی کمپنیوں کو لیبر ڈیپارٹمنٹ اور لیبر ڈسپیوٹ ریزولیوشن کمپنی لے جانا مشکل بھی ہے اور اس میں بہت وقت بھی لگ سکتا ہے اور اس سے جوابی کارروائی کا بھی خطرہ رہتا ہے۔