برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے مطابق فرانس کے وزیر برائے زراعت کا کہنا ہے کہ فروری میں ایک گھوڑے پر حملے کا پہلا واقعہ سامنے آیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں اب تک ایسی 30 وارداتیں ہو چکی ہیں۔
ہر نئے حملے کی خبر کے ساتھ فرانس میں حملہ آوروں اور ان کے عزائم کے بارے میں تجسس بڑھ رہا ہے۔
فرانسیسی وزیر زراعت جولین ڈینورمینڈی کے مطابق حملوں کے حوالے سے تحقیقات میں ہر قسم کی ممکنات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
فرانس کے شہری نکولس کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر پولیس نے حملہ آوروں کا خاکہ شائع کیا تھا۔
چند دن قبل دو حملہ آوروں نے نکولس کے گھوڑوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے وہ اپنے گھوڑوں کو چرا گاہوں میں چھوڑتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔
حملوں کے بعد فرانس کی چرا گاہیں گھوڑوں کے لیے غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ فوٹو ان سپلیش
فرانس کے ایک اور شہر میں چھوٹے قد کی نسل کے گھوڑوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ گھوڑوں کے دیگر اعضاء کاٹنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
فرانس میں اعضا مسخ کرنے کے ان واقعات کے حوالے سے مختلف نظریات گردش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی کوئی رسم ہو سکتی ہے، یا پھر سوشل میڈیا صارفین کا ایک دوسرے کو دیا گیا کوئی چیلنج ہے۔
فرانس کی ایک متاثرہ خاتون پولین نے گھوڑوں پر کیے گئے حملوں کے خلاف آواز اٹھانے کی غرض سے فیس بک پر ایک گروپ بھی بنا رکھا ہے جس کے 17 ہزار ممبران ہیں۔ جون میں پولین کے گھوڑے پر تشدد کر کے اسے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
پولیس کی ان حملوں کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں تاہم حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔