لاہور کے نواح میں ہونے والے ریپ کے واقعے کے ملزمان کو پکڑنے کے لیے بھی پولیس نے جیو فینسنگ کا طریقہ استعمال کیا ہے جو کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
انٹیلی جینس بیورو کے سابق سربراہ شعیب سڈل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جیو فینسنگ کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'پہلی بات تو نام سے ظاہر ہے کہ آپ ایک مخصوص علاقے میں ورچوئل باڑ لگا لیتے ہیں۔ اب اس مخصوص علاقے میں ایک وقت میں چلنے والے تمام موبائل فون کمیونیکیشن آپ کی دسترس میں آ جاتی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس علاقے میں جیو فینسگ کا عمل شروع کیا جاتا ہے اس کے موبائل فون ٹاورز سب سے پہلے مارک کیے جاتے ہیں اور ان سے منسلک تمام موبائل فونز نمبر لے لیے جاتے ہیں۔ ہر موبائل فون کے سگنل سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ اس ٹاور سے کتنی دور واقع ہے۔'
دور جدید میں جیو فینسنگ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے بڑے بڑے کیسز کے مجرم پکڑے گئے اور انہوں نے سزا بھی پائی (فوٹو:اے ایف پی)
شعیب سڈل کے بقول 'یہ کام اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب آپ مخصوص وقت کا ویری ایبل بھی ساتھ لگا لیتے ہیں۔ مثلا جیسے لاہور کا واقعہ رات 12 بجے سے دو بجے کے درمیان ہوا تو آپ نے اس علاقے میں اس وقت چلنے والے تمام فون نمبرز لے لیے جو اس وقت آن تھے اور ٹاور سے سگنل لے رہے تھے۔'
پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشن سہیل سکھیرا نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ہر سگنل کے ساتھ اس کے کوآرڈینیٹ بھی ٹاور کو موصول ہو رہے ہوتے ہیں جس سے پن پوائنٹ کیا جا سکتا ہے کہ موبائل کی لوکیشن کیا یے۔ حالیہ واقعے میں پولیس نے پانچ کلو میٹر کے علاقے کی جیو فینسنگ کی۔'
شعیب سڈل کے مطابق پاکستان میں جیو فینسگ کی سہولت اب پولیس کو بھی حاصل ہے (فوٹو اے ایف پی)
انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس کیس میں تھوڑی سی آسانی یہ بھی تھی ایک تو رات کا وقت تھا اور اس جگہ کے ارد گرد لوگ نہیں تھے۔ لہذا خاتون کے موبائل کے قریب چلنے والے دو موبائل فونز اسی وقت تفتیش کاروں کی نظر میں آگئے اس کے بعد ان کا کال ڈیٹا ریکارڈ بھی نکالا گیا اور ملزموں تک پہنچنے میں مدد ملی۔'
انٹیلی جینس بیورو کے سابق سربراہ شعیب سڈل کے مطابق پاکستان میں جیو فینسگ کی سہولت پہلے صرف خفیہ ایجنسیوں اور فوج کے پاس تھی لیکن اب پولیس کو بھی رسائی حاصل ہے۔