ہفتے کے روز تمام نیوز رومز میں شدت سے یہ چہ مگوئیاں رہیں کہ آیا مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف کی تقریر ہوگی بھی یا نہیں، اور اگر ہونی ہے تو کیا اس کو پاکستانی میڈیا براہ راست نشر کر پائے گا۔
اپوزیشن کی، اے پی سی کے نام کی بیٹھکیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن اس دفعہ میاں نواز شریف کی دو سال بعد سیاسی واپسی اور تقریر کی وجہ سے ماحول کافی گرم تھا۔
بہرحال، اتوار کے روز نواز شریف کی تقریر نہ صرف ہوئی بلکہ پوری کی پوری نشر بھی کی گئی۔ میاں صاحب کی تقریر کے دوران سکرین کے بائیں جانب ’ووٹ کو عزت دو‘ کا لوگو نمایاں نظر آ رہا تھا۔
مزید پڑھیں
-
خواتین کے دکھ اور بے بسی کی انتہاNode ID: 504861
-
اتفاقات، اختلافات، تضادات اور معیاراتNode ID: 505636
-
’ووٹ کو عزت دو‘، نواز شریف نے ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا لیاNode ID: 506031
اس لوگو کو دیکھ کر مجھ جیسا سیاسی طالب علم سوچ میں پڑ جاتا ہے- جب سینیٹ میں الیکشن ہو یا ایکسٹینشن پر ووٹنگ، اس وقت یہ نعرہ تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے- جب ن لیگ کی قیادت رات گئے ملاقاتیں کرتی ہیں تب بھی یہ نعرہ کہیں mute پر لگ جاتا ہے اور جب خواجہ آصف اور شاہد خاقان میں تلخی ہوتی ہے تو اس وقت پتہ نہیں چلتا کہ ووٹ کی عزت کا پاسدار کون ہے اور میاں صاحب کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں-
ان کھلے تضادات کے ہوتے ہوئے ووٹ کی عزت کی بات زبانی کلامی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ عملی طور پر کیسے اور کیونکر بحال ہو سکے گی؟
تقریر تو یقینا بولڈ تھی، اسے سراہنے والے اور رد کرنے والے دونوں ہی موجود ہیں- کسی کے بقول یہ تاریخی لمحہ تھا اور 'سماں بندھ گیا' اور کسی نے اس کو گھسی پٹی قرار دیا- جتنے منہ اتنی باتیں، ہرکوئی اس تقریر کو اپنے نظریے اور ایجنڈے کی عینک سے جانچے گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آگے میاں صاحب کا اصل گیم پلان کیا ہے؟
کیونکہ جو گیم میاں صاحب نے کھیلنے کا دعویٰ کیا ہے اس کے لیے ٹیم بھی ضروری ہے- ان کی صاحبزادی اس ٹیم کی روح رواں تو ہیں مگر باقاعدہ نائب کپتان شہباز شریف کا ہدف تو صرف عمران خان پر لفظی گولہ باری تک ہی محدود ہے۔

باقی صفوں میں بھی شہباز کے ساتھ کھڑے ہونے والے زیادہ اور مریم نواز کا ساتھ دینے والے کم ہیں- مریم نواز میاں صاحب کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر تو سماں باندھیں گی۔ اب ایک اکاؤنٹ کے بجائے دو اکاؤنٹ چلیں گے۔ کچھ عرصہ سوشل میڈیا سیل بھی سرگرم رہے گا مگر ووٹ لینے والے ایم این اے اور سینیٹر بدستور ووٹ کی عزت کے بجائے اپنی عزت بچانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
میاں صاحب کی اپنی ٹیم کے ساتھ دیگر اتحادیوں کا کردار بھی اہم ہے۔ اے پی سی کے نتیجے میں 26 نکاتی اعلامیہ اور ایکشن پلان سامنے تو آیا ہے لیکن اب سے لے کر جنوری میں ہونے والے لانگ مارچ تک کئی مراحل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کے پاس کھونے کو زیادہ کچھ نہیں اس لیے وہ آل آؤٹ یعنی استعفے تک جانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح سندھ حکومت اور دوسری نیب کیسز ہیں۔ وفاقی حکومت کے خلاف کارروائی کہیں تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے اور وہ بھی اپنے معاملات پر بارگیننگ کے لیے زیادہ اور اصولوں پر کم۔ جن کو میاں صاحب اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی ان کی زیر نگرانی کراچی پلان کا حصہ ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی پی پی میاں صاحب کے ساتھ ایک حد سے آگے زیادہ نہیں چلے گی۔
