Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اتفاقات، اختلافات، تضادات اور معیارات

پاکستان میں احتساب کے موجودہ نظام پر اپوزیشن جماعتیں اور وکلا تنظیمیں تنقید کرتی رہتی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
سارا مسئلہ ہی دوہرے معیار کا ہے۔ ساری مشکل ہی ان دوہرے معیارات اور تضادات کی ہے۔ اپنے ہاں ہر شے اور ہر موضوع کے بارے میں ہمارے کم از کم دو معیار ہیں۔
ہر دو کے اپنے اپنے مقلدین اور منصفین ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی دلیلیں اور اپنے ثبوت ہیں۔ ہر کوئی اپنے تئیں درست ہے اور ہر ایک کے ہاتھ میں حق کا علم ہے۔ اس ابہام سے سماج میں جو تقسیم آ گئی ہے اس کو ختم کرنا کاردیگر ہے۔
اس پر تو بہت بحث ہو چکی ہے کہ کون سا فریق کیوں، کیسے اور کہاں درست ہے اور کس سے کب اور کہاں گناہ سرزد ہوا ہے۔ درست غلط کی تفریق پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھتے ہیں آج بس ان تضادات پر بات کرتے ہیں۔ 

 

ہمارے ہاں منصفین  کے دو معیار ہیں۔ ایک معیار عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو ہسپتالوں میں چھاپے مارنے کا حق دیتا ہے۔ ڈیم کے لیے فنڈ جمع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ قانون کے رکھوالوں کو چیلنج کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ ایک معیار ہے۔
دوسرا معیار یہ ہے کہ ایک جج برملا کہتا ہے کہ مجھ پر دباؤ تھا۔ میں شرمسار ہوں۔ اس کو نوکری سے برخواست کر دیا جاتا ہے مگر ’دباؤ کے تحت کیے گئے فیصلے‘ پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ 
یہاں آزادی صحافت کے بھی دو معیار ہیں۔ ایک معیار کسی بھی سیاست دان پر جو جی چاہے کرپشن کے الزامات لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ ٹاک شو میں کاغذات لہرا لہرا سیاستدانوں کی تذلیل، دشنام طرازی اور ان کے خاندانوں پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت دیتا ہے۔ جمہوریت کی توہین کا حق دیتا ہے۔ اسمبلی میں بیٹھے ہر شخص کو چور ڈاکو کہنے کا درس دیتا ہے۔ ہر پبلک آفس ہولڈر کو چوک میں سرعام پھانسی دینے کا فتویٰ لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ ایک طرح کی آزادی صحافت ہے۔
دوسرا معیار یہ ہے کہ کوئی بھی آئین شکن ڈکٹیٹر کا ذکر نہیں کرتا۔ کسی میں بھی اتنی جرات نہیں ہوتی کہ کمر درد کا بہانہ  کر کے ملک سے باہر جانے والے آمر کی دبئی میں رقص کرتی ویڈیو کی جھلک ہی ناظرین کو دکھا دے۔ یہ وہی معیار ہے جس کے باعث صرف ’پیزے‘ کا غلطی سے نام لینے سے کچھ  کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔ خوف سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ لاکھوں کی نوکریاں ہاتھ سے جاتی نظر آتی ہیں۔ 

سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں خواتین کی عزت و حرمت کے بھی دو معیار ہیں۔ ایک معیار یہ کہتا ہے کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو نامرد بنا دیا جائے۔ ان کو چوک میں پھانسی دی جائے۔ ان کے عزت و حرمت کی خاطر ان کے حق میں جلوس نکالے جائیں۔ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے قرادادیں پیش کی جائیں۔ ایوان میں تقاریر کی جائیں۔
دوسری طرح کا معیار یہ سبق دیتا ہے کہ ایک خاتون اگر سیاست دان ہیں اور ان کا تعلق اپوزیشن سے ہے تو ان کے جلسے کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایسے غلیظ ٹرینڈ چلائے جائیں کہ جس کے بارے میں لکھنے کی اجازت، تحریر کی طہارت نہیں دیتی۔
یہاں میٹرو کے بھی دو معیار ہیں۔ ایک معیار یہ کہتا ہے کہ میٹرو کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ یہی معیار اسے جنگلہ بس قرار دیتا ہے۔ اسے مسافروں کی توہین قرار دیتا ہے۔ ہر چوک میں میٹرو کے خلاف احتجاج کا حق دیتا ہے۔
دوسرا معیار بی آر ٹی کا معیار ہے۔ جو تعمیر کے حوالے سے بھی ناقص ہے۔ خرچہ بھی زیادہ ہوا ہے۔  ہر دوسرے تیسرے روز ایک آدھ بس خود کو نذر آتش بھی کروا لیتی ہے مگر اس پر کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ اس کو کوئی کرپشن کا گڑھ نہیں قرار دیتا۔ اس پر کوئی جنگلہ بس کا نعرہ نہیں لگاتا۔ 

جج ارشد ملک کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں کرپشن کے بھی دو معیار ہیں ایک طرح کی کرپشن کے الزام میں والیم 10 جیسے ثبوت سامنے آ جاتے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کے منتخب وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور دوسرا معیار وہ جہاں وزیراعظم وضاحت سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ استعفیٰ منظور کرنے سے منکر ہو جاتا ہے۔
یہاں صحافت کے بھی دو معیار ہیں ایک طرح کی صحافت وہ ہے جس میں آنکھوں پر پٹی، زبان پر تالے اور ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ صحافت کا دوسرا معیار سوشل میڈیا پر ملتا ہے۔ یہ یو ٹیوبر کہلاتے ہیں، بلاگ لکھتے ہیں، ٹویٹ کرتے ہیں۔ ویب سائٹس پر خبریں چھاپتے ہیں۔ نہ ان کے پاس نوکری ہوتی ہے نہ اچھی گاڑی مقدر میں ہوتی ہے نہ کمائی کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے نہ ان کے بچے امریکہ میں پڑھتے ہیں نہ بھوک مٹانے کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے تئیں سچ لکھتے ہیں مگر کرپٹ، غدار اور لفافہ کہلاتے ہیں.
یہاں مہنگائی کے بھی دو معیار ہوتے ہیں۔ ایک معیار وہ ہوتا ہے جس میں بجلی کے بل جلا دیے جاتے ہیں، جس میں پٹرول کی قمیت بڑھنے پر حکمرانوں کو تجوریاں بھرنے کے الزامات دیے جاتے ہیں۔ سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جاتی ہے۔

پشاور کی بی آر ٹی بس سروس کو عارضی طور معطل کر دیا گیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

مہنگائی کا دوسرا معیار وہ ہوتا ہے جہاں پٹرول کی قیمت بڑھ جانے پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ چینی کی قیمت بڑھنے پر بس حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بجلی کے بل بڑھنے پر پچھلی حکومتوں کو طعنہ دیا جاتا ہے۔
یہاں میرٹ کے بھی دو معیار ہیں۔ ایک معیار کنٹینر پر چڑھ کر پولیس افسروں کو ہاتھ سے پھانسی دینے کی تلقین کرتا ہے اور دوسرا معیار نہ صرف سال میں چھ، چھ آئی جی تبدیل کرنے کا درس دیتا ہے بلکہ ایک افسر کا دفاع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ 
 شروع میں ہی عرض کیا تھا کہ اس سماج کا  سارا مسئلہ ہی دوہرے معیار کا ہے۔

شیئر: