سعودی عرب میں مکہ مکرمہ ریجن کی الکامل کمشنری کا شمنصیر پہاڑ اپنی تاریخی اہمیت اور سیاحتی کشش کے باعث حجاز کا مشہور ترین پہاڑ ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1600 میٹر اونچا ہے۔ اس کی چٹانوں پر ثمودی رسم الخط میں تحریریں موجود ہیں۔ یہ قدیم طرز حیات کے راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
المدینہ اخبار کے مطابق تاریخی کتابوں اور قدیم عرب شعرا کے قصائد میں اس کا نام شمنصیر کے بجائے ’سلیم‘ آیا ہے۔
معتدل آب و ہوا، نایاب درختوں، پودوں اور رنگا رنگ سبزہ زاروں کی وجہ سے یہ پہاڑ سیاحت کے شائقین میں بڑا مقبول ہے-
آثار قدیمہ کے ماہر اور قدیم تاریخ کے سکالر مہدی القرشی نے بتایا کہ جبل شمنصیر الکامل کمشنری کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی چٹانوں پر ثمودی رسم الخط والی تحریریں قدیم دور کے طرز حیات کے اسرار اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہاں زرعی کیاریاں، قبرستان اور چٹانوں کے نقوش دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
شمنصیر کا پہاڑی علاقہ جنگلی حیاتیات سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں انواع و اقسام کے جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں۔ چٹانوں پر بارہ سنگھا اور کئی نایاب جانوروں کی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ چٹانوں کے یہ نقوش دیکھنے کے لیے بھی شمنصیر پہاڑ کا رخ کرتے ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہر کا کہنا ہے کہ محکمہ سیاحت یہاں کئی پروگرام منعقد کرچکا ہے۔ پہاڑ کی تاریخی اور سیاحتی اہمیت کے پیش نظر یہاں شجر کاری کی جا رہی ہے۔
سیاحتی پروگراموں میں ایک یہ بھی تھا کہ سیاحوں نے یہاں سے گزرنے والے اونٹوں کے قدیم راستے کا احیا کیا ہے۔
مہدی القرشی کا کہنا ہے کہ یہاں پہاڑوں کی چٹانوں پر کلمہ شہادت جگہ جگہ نقش ہے جبکہ متعدد تاریخی شخصیات کے نام بھی چٹانوں پر منقش ہیں۔
سعودی عرب کے معروف مورخ عبدالقدوس الانصاری نے اس پہاڑ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تاریخی قریے مۃ ایع میں قبرستان اور چھاؤنی کے قریب واقع ہے جبکہ 304ھ میں عباسی خلیفہ المقتدر باللہ نے یہاں حج شاہراہ تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔