وزیراعظم عمران خان جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو اکثر اپنے فیلڈر بدلتے رہتے تھے، سیاست میں آکر بھی ان کی یہ خاصیت نہیں بدلی۔ پیر کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا استعفٰی قبول کرکے انہوں نے اپنے تبدیل کیے گئے وزرا اور معاونین خصوصی کی فہرست میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
جب وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست 2018 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو اپنی کابینہ میں پہلے مرحلے میں 21 ارکان نامزد کیے تھے جن میں سے 12 وہ تھے جنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اہم عہدوں پر کام کر رکھا تھا۔
ان میں شیخ رشید، فواد چوہدری، ڈاکٹر فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، زبیدہ جلال خان، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر عشرت حسین اور ملک امین اسلم شامل تھے۔
مزید پڑھیں
-
فردوس عاشق اعوان کیخلاف بھی نیب تحقیقاتNode ID: 393101
-
دوہری شہریت:معاونین خصوصی مستعفیNode ID: 495431
-
استعفٰی منظور: عاصم باجوہ اب معاونِ خصوصی نہیں رہےNode ID: 510681
تاہم چھوٹی کابینہ رکھنے کے انتخابی وعدے کے برخلاف وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حجم بڑھتا گیا اور آج ان کی کابینہ کے ارکان کی تعداد عاصم سلیم باجوہ کے استعفے کے بعد بھی 50 تک پہنچ چکی ہے جن میں 15 معاونین خصوصی اور پانچ مشیر شامل ہیں۔
کابینہ میں پہلا بڑا ردوبدل
تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی جماعت پی ٹی آئی نے کابینہ میں بھی تبدیلی کا سلسلہ جاری رکھا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے قیام کے آٹھ ماہ بعد ہی معاشی امور پر ناکامی کے حوالے سے سخت تنقید کے بعد کابینہ میں پہلا بڑا رد و بدل کیا۔
اپریل 2019 وزیراعظم عمران خان نے ناصرف وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کو برطرف کیا بلکہ اس وقت کے سب سے اہم وزیر اسد عمر سے بھی وزارت خزانہ کا چارج واپس لے لیا۔ اس کے علاوہ فواد چوہدری سے وزارت اطلاعات واپس لے کر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو اس کا چارج دے دیا گیا اور وزارت داخلہ کا اہم قلم دان بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کے حوالے کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا چارج دیا گیا۔
اعظم سواتی جنہوں نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے نیب کی انکوائری پر اپنے عہدے سے استعفٰی دیا تھا وہ واپس کابینہ کے رکن بن گئے جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا کو معاون خصوصی برائے صحت بنا دیا گیا۔
فردوس عاشق اعوان کی رخصتی
کون سوچ سکتا تھا کہ چند ماہ قبل تک حکومت کی پہچان سمجھا جانے والا وہ مانوس چہرہ جو اپوزیشن پر قہر بن کر دن رات برستا تھا وہ ایسا گوشہ نشین ہو جائے گا کہ ان کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ جی ہاں معاون برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو جب اس سال اپریل میں کابینہ سے نکالا گیا تو یہ سیاسی حلقوں کے لیے ایک سرپرائز تھا۔ اس وقت حکومت کے قریب سمجھے جانے والے ایک چینل پر خبر چلی کہ ان کو کرپشن کی وجہ سے نکالا گیا ہے تاہم کئی ماہ گزرنے کے بعد ابھی تک ان کی مبینہ کرپشن پر کوئی حکومتی تحقیقات سامنے نہیں آسکیں۔
معاونین خصوصی کے استعفے
سب سے زیادہ تبدیلیاں معاونین خصوصی کی ہوئیں۔ گذشتہ سال نومبر میں ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا افیئرز یوسف بیگ مرزا نے بھی استعفٰی دے دیا تھا۔ اس کے بعد الیکشن سے قبل وزیراعظم کے قریب سمجھے جانے والے معاون خصوصی افتخار درانی نے بھی اس سال فروری کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ استعفے سے قبل وہ بھی میڈیا افیئرز کے لیے معاون خصوصی کے طور پر کام کررہے تھے۔
جب اس سال مئی میں کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے 20 مشیروں اور معاونین خصوصی کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تفصیلات جاری کیں تو تنقید کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اسی تنقید کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس نے استعفٰی دے دیا۔ س حوالے سے تانیہ ایدروس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹویٹ میں کہا کہ میری شہریت کے حوالے سے ریاست پر ہونے والی تنقید ڈیجیٹل پاکستان کے مقصد کو متاثر کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے استعفے کے اعلان کے ساتھ وجہ تو نہیں بتائی تاہم اتنا کہا کہ ’میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) چھوڑ کر پاکستان آیا تھا، میں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔‘
اس کے علاوہ حال ہی میں وزیراعظم کے معاونین خصوصی کی فہرست میں تابش گوہر اور وقار مسعود خان کو شامل کیا گیا ہے۔ وقار مسعود محصولات اور تابش گوہر پاور ڈویژن کے معاون خصوصی مقرر کیے گئے ہیں۔
عاصم سلیم باجوہ کا استعفی
اپنے کاروبار اور غیر ملکی اثاثوں کے حوالے چھپنے والی ایک خبر کے بعد تنقید کا سامنا کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے گذشتہ ماہ کی تین تاریخ کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا مگر وزیراعظم نے اس وقت اسے قبول نہیں کیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا انہیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی۔
تاہم 12 اکتوبر کو وزیراعظم عمران خان نے ان کا استعفٰی قبول کر لیا۔