Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میڈیکل سائنس کا منفرد کیس، دو بہنیں بھائی بن گئے

ڈاکٹر امجد چودھری کے مطابق جنس کی تبدیلی کے آپریشن کے لیے مریض کا نفسیاتی تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔ فوٹو: فری پِک
پنجاب کے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے محمد عابد 9 بیٹیوں کے والد ہیں لیکن ان کی 2 بیٹیوں کے کامیاب آپریشن کے بعد وہ سات بیٹیوں اور 2 بیٹوں کے والد بن گئے ہیں۔  
17 سالہ بشریٰ اور 15 سالہ وافیہ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں جنس تبدیلی کے کامیاب آپریشن کے بعد ولید عابد اور مراد عابد بن چکے ہیں۔ 
محمد عابد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’صرف ہمارا خاندان نہیں بلکہ پورا گاؤں خوش ہے۔ میری نو بیٹیاں تھیں اور ہمارے معاشرے میں ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اولاد نرینہ ہو لیکن اللہ نے مجھے محروم رکھا تھا لیکن اب اللہ نے میری سن لی۔‘

 

ولید اور مراد کے کامیاب آپریشن کرنے والے پمز ہسپتال کے ڈاکٹر امجد چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس ہے کیونکہ اس میں دو سگی بہنوں میں ایسے جینز پائے گئے جس کے بعد  آپریشن ممکن ہوا۔ ’ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ دو سگی بہنوں کی جنس تبدیلی کا آپریشن ممکن ہوسکے اس لیے یہ میڈیکل سائنس کے اعتبار سے اپنی نوعیت کا منفرد کیس تھا۔‘ 
بشریٰ اور وافیہ کی جنس تبدیلی کا اس وقت معلوم ہوا جب وہ بارہویں اور نویں جماعت میں پڑھ رہی تھیں اور اساتذہ نے ان میں دیگر بچیوں سے ہٹ کر عادات دیکھیں تو ان کے والدین کی توجہ اس جانب دلوائی۔  
بچوں کے والد محمد عابد بتاتے ہیں کہ بچپن سے ہی ان کی عادتیں اور شوق لڑکوں والے تھے، گھر میں دیگر بہنوں کے ساتھ برتنوں اور گڑیوں سے کھیلنے کے بجائے یہ کرکٹ وغیرہ کھیلنے کو زیادہ ترجیح دیتے تھے لیکن ہم نے کبھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ ان کی جنس تبدیلی بھی ممکن ہے۔  

کامیاب آپریشن اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں کیا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

’اب دوستوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیل سکوں گا‘ 

17 سالہ بشریٰ جو کامیاب آپریشن کے بعد ولید عابد بن چکے ہیں، کہتے ہیں کہ بچپن میں مجھے کبھی لڑکیوں والی کھیلوں سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔ ہمیشہ لڑکوں والے کھیل کھیلتے تھے۔ ’مجھے کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا لیکن معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے گھر والے گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن ہم گھر میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے اب میں باہر جا کر کرکٹ بھی کھیل سکوں گا۔‘  
جب کالج میں داخلہ ملا تو اساتذہ  نے بھی کہا کہ ان کی عادتیں دیگر لڑکیوں سے مختلف ہیں۔ ’والدہ نے پھر والد صاحب سے کہا کہ ان کا چیک اپ کرواتے ہیں جس کے بعد گجرات میں لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے پمز ہسپتال میں ڈاکٹر امجد چوہدری کو ریفر کیا  جہاں مختلف ٹیسٹ کروانے کے بعد آپریشن ہوا جس میں تقریبا تین سے چار ماہ لگے۔‘ 
ولید عابد کہتے ہیں کہ میرے دل میں کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ ہم 9 بہنیں ہیں اگر ہم میں سے کوئی ایک بھائی ہوتا تو والدین کا ہاتھ بٹا سکتا تھا۔ ’ہماری ماں نے سب سے ہمیشہ ایک جیسی محبت اور برتاؤ کیا لیکن مجھے احساس تھا کہ ان کو بیٹا نہ ہونا کا دکھ ضرور ہے۔ اب ہم سات بہنوں کے دو بھائی بن گئے ہیں جس پر بہنیں اور والدہ انتہائی خوش ہیں۔‘  
15 سالہ مراد عابد کہتے ہیں کہ ’اکثر سکول میں مجھے بچیاں چھیڑا کرتیں کہ تمہاری آواز اور حرکتیں لڑکوں والی ہیں، جب ان کو پتہ چلا کہ میرا جنس کی تبدیل کے لیے آپریشن ہوگا تو میری سکول کی سہیلیاں ہی مجھ سے دور رہنے لگیں۔‘  

جنس کی تبدیلی کے آپریشن کے تمام مراحل مکمل ہونے میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ فوٹو: فری پِک

انہوں نے کہا کہ مستقبل کے بارے میں میرے وہی خواب ہیں جو پہلے تھے، ’میں پہلے بھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اب بھی میری یہی خواہش ہے کہ ڈاکٹر بنوں۔‘  

’جنس تبدیلی کا آپریشن مریض کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جاتا‘ 

ڈاکٹر امجد چوہدری کے مطابق اس آپریشن میں 5 سے 6 گھنٹے کا وقت لگا ہے اور سارے مرحلے کو مکمل ہونے میں تقریبا دو ماہ لگ جاتے ہیں۔  
انہوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے سائیکلوجیکل اسسمنٹ یا نفسیاتی تجزیہ بھی  کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ والدین نہیں بلکہ مریض خود کرتے ہیں کہ انہوں نے جنس تبدیل کرنے کا آپریشن کرنا ہے یا ایسے ہی زندگی گزارنی ہے۔ ’اس لیے آپریشن سے پہلے جہاں مختلف میڈیکل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں وہیں نفسیاتی طور پر بھی مریض کی کیفیت کو پرکھا جاتا ہے اور پھر وہی فیصلہ کرتا ہے کہ آپریشن کے مراحل سے گزرنا ہے یا نہیں اور اس سارے عمل میں دو ماہ کا وقت لگ جاتا ہے۔‘  

شیئر: