جب میراڈونا سعودی عرب میں کھیلے، عرب دنیا عظیم کھلاڑی کے انتقال پر افسردہ
جب میراڈونا سعودی عرب میں کھیلے، عرب دنیا عظیم کھلاڑی کے انتقال پر افسردہ
جمعرات 26 نومبر 2020 13:27
فٹبال کے عظیم کھلاڑی کے انتقال پر عرب دنیا نے افسوس کا اظہار کیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
ڈیاگو میراڈونا کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر شائقین فٹبال نے یہ تذکرہ شروع کر دیا کہ کیا میراڈونا ہی دنیائے فٹبال کے عظیم ترین کھلاڑی تھے۔
ساٹھ سالہ کھلاڑی کو 1987 میں جدہ میں ایکشن میں دیکھنے والے یقیناً یہی گواہی دیں گے کہ میراڈونا سب سے عظیم کھلاڑی تھے۔ جو اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں وہ بھی ارجنٹائن کے اس نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے عرب دنیا کا ساتھ ضرور دیں گے۔
اپنے ملک ارجنٹائن کو 1986 کے فٹبال ورلڈ کپ کا چیمپئن بنانا عالمی سطح پر میراڈونا کی وجہ تعارف تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب میراڈونا اپنی کارکردگی کی بلندیوں پر تھے۔ میکسیکو میں ان کی پرفارمنس کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔
اس موقع کے ٹھیک ایک برس بعد انہیں جدہ میں سعودی فٹبال کلب الاہلی کی شرٹ زیب تن کیے دیکھنا یقیناً ایک خاص مرحلہ تھا۔ وہ الاہلی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ڈنمارک کے کلب کے خلاف ایک نمائشی میچ کے سلسلے میں ہونے والی سرگرمیوں کا حصہ رہے تھے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر نپولی جہاں وہ ہر ہفتے کھیلتے تھے، افسردہ تھا کہ ان کا بہترین اثاثہ سعودی عرب جا رہا ہے جہاں وہ کہیں کسی انجری کا شکار نہ ہو جائے، لیکن وہ میراڈونا تھا، انہوں نے وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔ اس مرحلے پر ایک لاکھ ڈالر کی فیس ایسا معاملہ تھا کہ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
سٹار کھلاڑی کی موجودگی سے مہمیز پا کر الاہلی نے نمائشی میچ میں یورپی مدمقابل ٹیم کو پانچ، دو کے فرق سے شکست دی تھی۔ ان میں سے تین گول جنوبی امریکی کھلاڑی جب کہ باقی دو انہوں نے کیے تھے۔
میرا ڈونا کی جانب سے مدمقابل عرب ٹیم کے خلاف ایک ہی گول کیا گیا تاہم مراکش کے شائقین اس کا برا نہیں مانیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا دفاع 1994 میں کھیلے گئے دوستانہ میچ میں ایک ماہر کھلاڑی کے سامنے تھا۔ یہ ان کی جانب سے اپنے ملک کے لیے آخری گول تھا، اسی دوران ورلڈ کپ کے لیے ڈرگ ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد وہ کبھی بین الاقوامی سطح پر نہیں کھیل سکے۔
بعد میں 2010 کے ورلڈ کپ میں میراڈونا نے ارجنٹائن ٹیم کی کوچنگ کی جہاں وہ اپنی قومی ٹیم کو آخری آٹھ کے مرحلے تک لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے ایک برس بعد اس وقت پچاس سالہ کھلاڑی نے فٹبال کی دنیا کو چونکایا اور اماراتی شائقین کو محظوظ کیا جب انہوں نے الوصل کو سنبھالا۔ مغربی ایشیا بہتر ریکارڈز رکھنے والے بہتر کوچز دیکھ چکا تھا لیکن اس سے قبل دنیائے فٹبال کا اتنا بڑا نام ان کی جانب نہیں آیا تھا۔
کلب کے چیئرمین مروان بن بیات کے مطابق انہیں ابوظبی کے سٹیڈیم کے گرد موجود جوش و خروش اب بھی یاد ہے۔ جب وہ پہلے میچ کے لیے ستمبر 2011 میں الجزیرہ میں اترے تو یہ معمول سے کہیں زیادہ رش تھا جسے دنیا بھر کا میڈیا کور کرتے ہوئے عظیم کھلاڑی سے گفتگو کا خواہاں تھا۔ مسکراتے ہوئے جنوبی امریکن کھلاڑی نے جب میڈیا سے گفتگو کی تو ان کے سامنے رکھے کثیر تعداد میں مائیکروفونز ایشیائی فٹبال کی تاریخ کا وہ موقع تھا جو کبھی کبھی ہی سامنے آتا ہے۔
مروان بن بیات کے مطابق سچ تو یہ ہے کہ وہ ابتدا کرنے سے پہلے ہی کامیاب ہو چکے تھے۔ کلب دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا حصہ تھا۔ تجارتی حوالے سے یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس کا جواب موجود تھا۔ الوصل کا نام عالمی سطح پر نمایاں ہوا، ہمیں جو تشہیر ملی اس کا موازنہ دنیا کے کسی بھی بڑے کلب سے کیا جا سکتا ہے۔
میدان میں پہلا مقابلہ ایک دلچسپ مرحلہ تھا جو مہمان سائیڈ کے لیے چار، تین کی شکست کے ساتھ ختم ہوا۔ اس نے باقی سیزن کی سمت بھی متعین کر دی۔ اس پورے مرحلے میں کم ہی کوئی ایسا موقع تھا جسے عام سا کہا جائے البتہ اس کا اختتام افسردہ کر دینے والا تھا۔ میراڈونا 14 ماہ بعد جولائی 2012 میں کلب کے آٹھویں نمبر پر رہنے کے بعد برطرف کر دیے گئے تھے۔
ارجنٹائن کے سابق کھلاڑی اور میرا ڈونا کے ساتھ 1982 اور 1990 کا ورلڈ کپ کھیلنے والے گیبریئل کالڈیرون بھی اسی عرصے میں متحدہ عرب امارات میں کوچنگ کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے جب میراڈونا اسی کردار میں یہاں موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقابل دنیا کا بہترین کھلاڑی تھا۔
بنی یاس کی کوچنگ کرنے والے کالڈیرون کے مطابق ’اپنی ٹیم میں ان کی موجودگی کی وجہ سے آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘۔ کالڈیرون نے بعد میں الوصل سمیت سعودی عرب میں بھی کوچنگ کی ذمہ داری ادا کی۔
الوصل کے بعد امارات میں میراڈونا کا پڑاؤ ختم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے 2017 کے سیکنڈ ڈویژن کے لیے فجیرہ کا انتظام سنبھال لیا۔ بعد میں ترقی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس ذمہ داری کو چھوڑ گئے تھے۔
یہ بات درست ہے کہ ایک عظیم کھلاڑی کی رخصتی پر دنیا ان کے لیے سوگوار ہے لیکن عرب دنیا کے پاس ڈیاگو میراڈونا کی خاص یادیں ہیں۔ یہ یادیں ایک ایسے کھلاڑی سے متعلق جو کچھ عرصے کے لیے 1987 کے دوران سعودی عرب میں جگمگاتا رہا۔