Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں فیس دے کر علاج ہوگا؟

ایم ٹی آئی آرڈیننس اسلام آباد کے پمز ہسپتال پر لاگو کیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد کے تین بڑے ہسپتالوں پر میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ آرڈیننس لاگو ہونے اور خودمختار ادارہ بنائے جانے پر ڈاکٹرز گذشتہ 15 روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔ 
ایم ٹی آئی آرڈیننس اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) پولی کلینک اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریہیبیلیٹیشن پر لاگو کیا گیا ہے جس پر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت ہسپتالوں کی نجکاری کی گئی ہے اور اب مریضوں کا فیس ادا کرنے کے بعد علاج ممکن ہو سکے گا۔ 
میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ آرڈیننس ہے کیا؟ 
تحریک انصاف کی حکومت نے صحت کے شعبے میں اصلاحات لانے کے لیے 2013 میں خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی آرڈیننس پر کام شروع کیا اور 2015 میں صوبے کے مختلف ہسپتالوں میں ایکٹ کے تحت پائلٹ پراجیکٹ کے طور لاگو کیا گیا۔
اس سلسلے میں عمران خان نے ڈاکٹر نوشیروان برکی کو امریکہ سے پاکستان بلایا اور صوبے میں صحت کے شعبے میں اصلاحات کی ذمہ داریاں سپرد کیں۔ 

 

ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت سرکاری ہسپتالوں کو ایک خود مختار ادارہ بنایا گیا ہے جس کے تحت ہسپتال اپنا ریونیو خود اکٹھا کرے گا جبکہ ہسپتالوں کے انتظامی امور چلانے کے لیے پانچ رکنی بورڈ آف گورنرز کا تقرر کیا گیا ہے۔
 بورڈ آف گورنرز میں صحت کے شعبے اور انتظامی امور کے ماہرین کو شامل کیا جائے گا۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں بورڈ آف گورنرز کی تقرری وزیراعلٰی جبکہ وفاق میں یہ ذمہ داری وزارت صحت کو دی گئی ہے۔ 
کیا سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے فیس ادا کرنا ہوگی؟
آرڈیننس کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں صبح کے اوقات میں مریض کو ایمرجنسی اور او پی ڈیز میں مفت علاج کی سہولت دی جائے گی جبکہ تمام ٹیسٹس ہسپتال سے ہی کروانا لازمی ہوں گے جس کی سبسڈائزڈ فیس مقرر کی جائے گی۔ 
خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں مختلف ٹیسٹوں کی یہ فیس 200 سے 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔ 

 سول سروس میں رہنے والے ملازمین کو پروموشن اور دیگر سروس سٹرکچر فراہم نہیں کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے علاوہ ہسپتال سے منسلک ڈاکٹرز کو پرائیویٹ کلینکس میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ دن دو بجے کے بعد سرکاری ہسپتال میں ہی پرائیویٹ پریکٹس کرنے کی اجازت ہوگی جس کی فیس بورڈ آف گورنرز ہی مقرر کریں گے اور اس کا ایک مخصوص حصہ ہسپتال کو بھی جائے گا۔ 
شام کے اوقات میں بھی مریضوں کے لیبارٹری ٹیسٹس ہسپتال کی لیب سے ہی کروائیں جائیں گے اور ان ٹیسٹوں کی فیس بھی سرکاری سبسڈائزڈ ریٹ کے مطابق ہی لی جائے گی۔ 
ڈاکٹروں کے تحفظات کیا ہیں؟ 
پمز ہسپتال کا عملہ گذشتہ 15 روز سے آرڈیننس کے خلاف احتجاج کر رہا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ اس آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔ 
آرڈیننس کے تحت ہسپتالوں کو خود مختار ادارہ قرار دیے جانے کے بعد ہسپتال کے ملازمین کو سول سرونٹ ملازمت رکھنے یا ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملازمت رکھنے کی آپشن دی جائے گئی۔ 
 سول سروس میں رہنے والے ملازمین کو دیگر مراعات تو حاصل ہوں گی لیکن پروموشن اور دیگر سروس سٹرکچر فراہم نہیں کیا جائے گا جبکہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملازمت رکھنے والے پنشن اور دیگر سرکاری مراعات سے محروم رہیں گے لیکن ان کی تنخواہیں سول سرونٹ ملازمین سے زائد مقرر کی جائیں گی۔ 

نجکاری کے نظام میں ایک سرکاری ہسپتال میں شام کو مریض فیس دے کر علاج کروائیں گے (فوٹو: ٹوئٹر)

تاہم اس آرڈیننس کے بعد عملے کی بھرتی ایم ٹی آئی آرڈیننس کے تحت ہی کی جائے گی۔   
 گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر اسفند نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پمز ہسپتال کے ملازمین سول سرونٹ تصور ہوتے تھے اور انہیں مراعات حاصل تھیں ’لیکن اس آرڈیننس کے بعد ہماری سول سرونٹ والی حیثیت ختم ہو چکی ہے اور جو مراعات ہمیں ملنا تھیں وہ تو ختم کر دی گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ نجکاری کے نظام میں ایک سرکاری ہسپتال میں شام کو مریض فیس دے کر علاج کروائیں گے، 'اگر ہسپتال چلانے ہیں تو آپ مزید ڈاکٹرز بھرتی کریں اور شام کو بھی مفت علاج کروائیں، شام کو اگر دو ہزار روپے فیس مقرر کی جاتی ہے تو ایک عام آدمی اتنی فیس کہاں سے دے گا؟
انہوں نے اس نظام میں سیاسی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'سیاسی لوگ بورڈ آف گورنرز میں اپنے لوگوں کو نوازیں گے اور جو پارٹی سے منسلک افراد ہیں وہ بورڈ آف گورنرز کا حصہ ہوں گے۔'
خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کا تجربہ کیسا رہا؟ 
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں اس وقت دس بڑے ہسپتال ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ 

پشاور کے مقامی صحافی ریحام یوسفزئی  کہتے ہیں کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے فوائد اور نقصان دونوں سامنے آئے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

پشاور کے مقامی صحافی ریحام یوسفزئی کہتے ہیں کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے فوائد اور نقصان دونوں سامنے آئے ہیں۔ 'ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ہسپتالوں کو خود مختار ادارہ بنایا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہسپتال اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے۔ اس سے ظاہر ہے ہسپتال نے مریضوں سے ہی پیسے لے کر اپنا ریونیو اکٹھا کرنا ہے لیکن بورڈ اف گورنرز مقرر ہونے سے عملے کی کارکردگی بھی جانچی جائے گی اور ہسپتال کی مشینری جو کہ عمومی طور پر سرکاری ہسپتالوں میں خراب چھوڑ دی جاتی ہے اسے بھی درست حالت میں رکھا جائے گا کیونکہ ایک مقابلے کی فضا قائم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ 'پہلے مفت علاج تو ہوتا تھا لیکن ٹیسٹس کے لیے ڈاکٹرز نجی لیبز کو ہی ترجیح دیتے تھے جس کی نسبت اب ہسپتال میں کم پیسوں میں وہ ٹیسٹس ممکن ہو سکیں گے۔‘
ریحام یوسفزئی کے مطابق اس نظام میں جو نقصان ہو رہا ہے وہ ایک انتظامی امور چلانے کا ہے کیونکہ بورڈ آف گورنرز ماہرین ہر مشتمل ہوتا ہے لیکن ڈاکٹرز کے معاملات اور انتظامی امور چلانے کے تکنیکی مسائل سامنے آتے ہیں اس کے علاوہ سسٹم میں خامیوں کی وجہ سے مکمل طور ہر اس ایکٹ پر عمل درآمد بھی نہیں ہو رہا جبکہ صوبے میں اب سرکاری ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ چکا ہے۔'

شیئر: