Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کی گڑھی خدا بخش حاضری، ماضی دفن ہوگا؟ 

بلاول بھٹو نے مریم نواز کو برسی کے موقع پر شرکت کی دعوت دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
27 دسمبر کو پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دیں گی۔
وہ برسی کے سالانہ جلسہ عام سے خطاب بھی کریں گی۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنما بھی اس جلسے سے مخاطب ہوں گے۔ 
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دے رکھی ہے لیکن مریم نواز کی جانب سے ان کی دعوت قبول کرنا اور بے نظیر کے مزار پر حاضری دینا ملکی سیاسی تاریخ میں ایک منفرد واقعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 
یہ پہلا موقع نہیں ہوگا کہ شریف خاندان میں سے کوئی رہنما گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی قبروں پر حاضری دے گا۔ اس سے قبل بے نظیر کی وفات کے فوری بعد 29 دسمبر کو نواز شریف نے ان کی قبر پر حاضری دی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی احترام، رواداری اور سیاسی اخلاقیات کا فقدان ہی نظر آتا ہے۔
90 کی دہائی کی پاکستانی سیاست کو جمہوری ادوار ہونے کے باوجود سیاسی لحاظ سے سیاہ دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ جہاں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف ایک دوسرے کی حکومت گرا کر اقتدار میں آنے کی تگ و دو کرتی رہیں بلکہ ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف منفی مہمات بھی چلاتی رہیں۔ 

مارچ 2006 میں دونوں رہنماؤں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

سینیئر صحافی مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ ’بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے 9 ماہ بعد نواز شریف نے اسامہ بن لادن سے 15 کروڑ ڈالر لیے اور تحریک عدم اعتماد لے کر آئے۔ یہ بات بے نظیر نے اپنی کتاب دختر مشرق میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ جس میں وہ کہتی ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ ایک خاتون سربراہ حکومت کے حق میں نہیں تھے اس لیے انھوں نے نواز شریف کے ذریعے حکومت گرانے کی کوشش کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’90 کی دہائی میں مسلم لیگ ن کی جانب سے بے نظیر کی کردار کشی کی مہم بھی چلائی گئی جس کے ماسٹر مائنڈ اس وقت حسین حقانی ہوتے تھے۔ حسین حقانی بعد میں پیپلز پارٹی کا حصہ بنے اور امریکہ میں سفیر بن گئے۔ جب دونوں سیاسی جماعتیں گڑھی خدا بخش میں اکٹھی ہوں تو اپنے کارکنوں کے سامنے اپنی ان ساری غلطیوں کا اعتراف بھی کریں۔‘
دونوں سیاسی جماعتیں اپنی ان غلطیوں کو متعدد بار تسلیم بھی کر چکی ہیں اور ان کو بھلانے کا وعدہ بھی کر چکی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں جماعتوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آ جاتے ہیں کہ 90 کی دہائی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ 
نواز شریف کی جانب سے میمو گیٹ سکینڈل میں عدالت جانے سے لے کر یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا مطالبہ کرنے تک، شہباز شریف کی جانب سے علی بابا اور چالیس چور کی اصطلاح سے لے کر سابق صدر زرداری کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات تک، بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے نواز شریف کو مودی کا یار کہنے سے لے کر مریم نواز کی جانب سے عمران زرداری بھائی بھائی کے نعروں تک دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں عروج پر رہی ہیں۔

پی پی پی کی پہلی حکومت کو نکلوانے کا الزام مسلم لیگ ن پر لگایا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سندھ کے ممتاز صحافی و کالم نگار سہیل سانگی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ماضی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں بلکہ نواز لیگ کا وجود دراصل پیپلز پارٹی کی مخالفت کی بنیاد پر تھا۔ نواز لیگ ہی کی وجہ سے پی پی پی غلام اسحاق کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئی۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتی رہیں اس وجہ سے پارلیمان اور سول بالادستی کی جدوجہد کمزور ہوئی۔ مشرف نے جب دونوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا تو پھر دونوں نے سبق سیکھا اور میثاق جمہوریت کیا۔‘
سہیل سانگی کے مطابق ’نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان رنجشیں اور الزامات سیاسی سے زیادہ ذاتی تھے۔ اس وجہ سے ان کو قریب آنے میں دقت تھی۔ اسی وجہ سے انھیں قریب آنے میں دیر لگی۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان اس طرح کے معاملات نہیں ہیں اس لیے وہ بہتر طریقے سے مفاہمتی سیاست کو فروغ دے سکتے ہیں۔‘
بے نظیر اسامہ بن لادن سے پیسے لے کر ان کی حکومت گرانے کا الزام نواز شریف پر لگاتی رہی ہیں، تو ن لیگ ان کو مشرف کے مارشل لاء کا خیرمقدم کرنے کا طعنہ دیتی رہی ہے۔ 
بے نظیر کی زندگی کے آخری دنوں میں دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت سے فضا قدرے بہتر ہوئی تھی۔ بے نظیر کے قتل پر نواز شریف کے فوری طور پر ہسپتال پہنچنے کے عمل نے بھی دونوں جماعتوں کے کارکنان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد دی تھی۔ 

90 کی دہائی میں مسلم لیگ ن نے بے نظیر کی کردار کشی کی مہم چلائی۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے گفتگو میں مجاہد بریلوی نے کہا ہے کہ ’اب جب مریم نواز گڑھی خدا بخش جا رہی ہیں تو ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بے نظیر کی حکومت گرانے سے لے کر بے نظیر کی کردار کشی تک کی تمام باتوں کو یاد کریں اور کم از کم معافی تو مانگیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس وقت جب مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں وہ ان دونوں جماعتوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف قائم کیے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول کو سپریم کورٹ میں جا کر کہنا چاہیے کہ ہمارے بڑوں نے ایک دوسرے کے خلاف غلط مقدمات قائم کیے تھے اور ہم وہ واپس لیتے ہیں۔ اگر یہ ایسا کرتے ہیں تو کم از کم دونوں کے ماضی کے گلے شکوے کم ہو جائیں گے۔'
پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں حکومت مخالف تحریک تو جاری ہے لیکن اس تحریک کا اصل چہرہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ہی ہیں۔ جن کی جانب سے ایک دوسرے کے باہمی احترام کا بار بار اعادہ کیا بھی کیا جا رہا ہے اور سوال کرنے پر دونوں جماعتوں کے ماضی پر کم از کم شرمندگی کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ 
بلاول بھٹو بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ دونوں سیاسی جماعتوں کا ماضی اور باہمی تعلقات قابل فخر نہیں رہے۔ 
صحافی اور کالم نگار سہیل سانگی سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قربت خوش آئند ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ قربت اس وقت تک تو نہیں جب تک دونوں میں سے کسی ایک کو اقتدار سے باہر رکھا گیا ہے۔ ان میں کوئی ایک جماعت اقتدار میں آ جائے تو پھر نئی صورت حال دیکھنے میں آئے گی۔‘

نواز شریف نے بے نظیر کی وفات کے فوری بعد ان کی قبر پر حاضری دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ایک تیسری پارٹی اقتدار میں ہے۔ سیاسی جماعت کے خلاف جدوجہد آمریت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد سے مشکل ہوتی ہے۔ اس وقت دونوں جماعتوں کے لیے یہ سمجھنا لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں لیکن وہ اس بات کو سمجھتے ہیں یا نہیں اس کا اندازہ فی الحال مشکل ہے۔‘

شیئر: