وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ضلعی انتطامیہ اور وائلڈ لائف عملہ اس وقت متحرک ہوا جب ٹویٹر پر ایک خاتون صارف نے چینی فیملی کی جانب سے گھر پر چمگادڑیں پکانے اور کھانے کی شکایت کی۔
ٹم ٹم کوارنٹینو نامی ہینڈل نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کو مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ ’سر مارگلہ روڈ پر ایک چینی فیملی اپنے نیو ائیر کے لیے چمگادڑیں پکا رہی ہے۔ یہ شدید پریشان کن ہے کہ اس سے مزید وائرس پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔‘
خاتون نے اس کے ساتھ ایک تار سے لٹکی ہوئی گوشت کی تصاویر بھی شیئر کیں۔
مزید پڑھیں
-
سندھ میں جانوروں کی رجسٹریشن ہوگی،بل منظورNode ID: 160541
-
فوٹوگرافروں کا جنگل میں جانوروں کے ساتھ دلچسپ ٹاکرا: تصاویرNode ID: 535171
-
چولستان کے لائیو سٹاک ذخیرے کا دودھ کہاں جا رہا ہے؟Node ID: 536161
اس سے اگلی ٹویٹ نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں ایک خاتون ماسک پہنے بیزاری کا اظہار کر رہی ہیں جس میں انھوں نے لکھا کہ ’وہ چمگاڈریں کھا رہے ہیں اور میری بہن عجیب عجیب باتیں کر رہی ہے۔‘
اس ٹویٹ میں خاتون سارف نے ڈی سی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان کو بھی مینشن کیا۔
مجبوراً ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’آپ کی شکایت نوٹ کر لی گئی ہے۔‘ جس کے بعد وائلڈ لائف کی ٹیم نے متعلقہ گھر کا دورہ کیا۔ عملے نے تار کے ساتھ لٹکے ہوئے گوشت کی تصاویر لیں اور متعلقہ صارف کو جواب دیا کہ ’یہ چکن، فش، مٹن ہے جو چینی فیملی نے اپنی روائتی ڈش کے لیے خشک ہونے کے لیے لٹکا کر رکھا ہوا ہے۔‘
خاتون صارف پھر بضد رہیں اور جواب دیا کہ آپ دیر سے پہنچے انھوں نے چمگادڑیں ہٹا دی تھیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ’وائلڈ لائف کا عملہ گیا تھا وہاں چمگادڑ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ایک شکایت پر نہ صرف سرکاری وسائل اور وقت کا ضیاع ہوا بلکہ چینی فیملی کو اپنے گھر کی تصاویر اور ایڈریس پبلک ہونے پر تشویش بھی ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شہریوں کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے اور ایسی شکایات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ کون سا کام جائز اور کون سا ناجائز ہے۔ ہم نے پورا قانون چھان مارا ہے اور پاکستان کوئی قانون بھی کسی غیرملکی اور غیرمسلم کو اپنے گھر میں چوہے یا چمگادڑیں کھانے سے منع نہیں کرتا۔
اس حوالے سے اردو نیوز نے محکمہ وائلڈ لائف سے بھی رابطہ کیا۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے منیجر آپریشن سخاوت ناز نے کہا کہ ’اسلام آباد میں چمگادڑیں موجود ہیں۔ ٹویٹ دیکھنے کے بعد ہمیں بھی شک ہو گیا تھا۔ لیکن جب ٹیم نے وزٹ کیا تو وہ دیسی مرغیاں، مچھلی اور باقی گوشت تھا۔‘
خاتون صارف کی اس ٹویٹ پر دیگر صارفین نے ایسے ہی سوالات اٹھائے ہیں کہ جو کام آپ کے لیے غیر قانونی ہے ضروری نہیں کہ وہ کسی غیر ملکی کے لیے غیر قانونی ہی ہو۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے کئی افراد بھی متحرک ہوئے اور معاملے کی از خود چھان بین کی۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے سرگرم رینا ایس خان نے لکھا کہ ’وائلڈ لائف سے رابطہ کیا ہے۔ گوشت کے علاوہ کوئی چمگادڑ نہیں تھی۔ بنا ثبوت کے کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘
Apologies there weren’t any bats. I’m not the neighbour. Concerned neighbour reported the authorities as well. Glad to know no one is cooking bats. Thank you! https://t.co/a1L1oVhIwJ
— timtim quarantino (@mijaziburger) January 28, 2021