سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے گذشتہ ماہ فیوچر انویسمنٹ انیشیٹو کانفرنس میں ریاض کے مستقبل کی ترقی کا پیش کیا جانے والا وژن انسانی ذہن کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق 2030 میں سعودی دارالحکومت کی آبادی اپنی موجودہ 75 لاکھ کی تعداد سے دگنی ہو جائے گی۔
یہ دنیا کی 10 بڑی شہری معیشتوں میں سے ایک کا مرکز ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ زندگی سے بھرپور، سبز مقامات سے پُر اور تفریحی اور شہری سہولیات فراہم کرنے والا مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا شہر ہوگا، جو دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو اپنی جانب راغب کرے گا۔
مزید پڑھیں
-
خواتین وژن 2030کی موثر اور اہم شریکNode ID: 402651
-
’امریکی سرمایہ کار طبقہ سعودی وژن 2030 کے اہداف سے متاثر‘Node ID: 537376
سعودی ولی عہد نے ’ تجدید نو‘ کے عنوان کے تحت منعقد ہونے والی ایک تقریب میں کہا کہ ’حقیقی ترقی کا آغاز شہر سے ہوتا ہے، خواہ وہ صنعت، جدت، تعلیم، سروسز ہوں یا دوسرے سیکٹرز کا معاملہ ہو۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’مجھے اس بات پر کوئی شک نہیں کہ عالمی معیشت کا انحصار قوموں پر نہیں بلکہ شہروں پر ہوتا ہے۔‘

سعودی ولی عہد کے مطابق ’ریاض کی تجدید نو کے منصوبے کو رائل کمیشن آف ریاض سٹی کے صدر فہد الرشید نے پورا کرنا ہے۔ جو اس حکمت عملی کے چیلنجز سے بخوبی واقف ہیں جس کے مطابق بغیر کسی عمل کے وژن دھوکہ ہے۔‘

شہر کو تبدیل کرنے کا تفصیلی منصوبہ اس وقت تیاری کے مراحل میں ہے، جو رواں سال کے اگلے کچھ مہینوں میں پیش کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے حوالے سے مشرق وسطیٰ میں شہری ترقی کے ماہرین نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ ’یہ حکمت عملی قابل عمل اور فائدہ مند ہے۔‘
لندن میں مقیم ماہر تعمیرات کارل شارو کا کہنا ہے کہ ’تاریخی طور پر یہ ممکن ہے۔ ریاض ملک کی تاریخ کے لیے نہایت اہم ہے۔‘
ایمسٹرڈیم سے تعلق رکھنے والے ماہر تعمیرات ٹوڈ ریسز نے اس منصوبے کے حوالے سے کہا کہ ’ریاض کے پاس پہلے سے ہی ایک شہر کی منصوبہ بندی کرنے اور اس کے حوالے چیزوں کو منظم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘
ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ریاض کے منصوبے غیر معمولی ہیں لیکن قابل عمل ہیں۔

درحقیقت سعودی دارالحکومت کی اپنی ایک تیزی سے ترقی کی ایک تاریخ ہے۔
ریاض کے حوالے سے ماہر تعمیرات صالح الهذلول نے سائنٹفک ریسرچ جرنل میں لکھا ہے کہ ’ریاض پچھلے 50 سالوں میں پانچ لاکھ سے کم آبادی والے قصبے سے 70 لاکھ والی آبادی کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہوا ہے۔ ایسی ترقی اور تبدیلی کے پیمانے کی کچھ ہی مثالیں ہیں۔‘
1930 سے 1980 کے درمیان ریاض کی حدود بڑھ کر ہر دس سالوں میں دگنی ہوئی ہے۔

نئی سعودی مملکت کے انتطامی مرکز کے طور پر اس میں وزارتوں سمیت دوسرے حکومتی محکموں کی عمارات بنیں۔ نیز سفارت کاروں کے لیے بھی ایک حصہ مختص ہوا اور ایک کاروباری مرکز بھی بنایا گیا۔
1970 میں ابھرتے ہوئے شہر کو ایک اعلیٰ صلاحیتوں کے ماہر کی ضرورت تھی، جس کے لیے حکام نے یونان کے کونسٹاٹینوس ڈوکسیاڈیس کا انتخاب کیا۔ ڈوکسیاڈیس اس سے پہلے یونان اور مشرق وسطیٰ اور ہاکستان میں کام کر چکے تھے۔ جبکہ پاکستان میں انہوں نے نیا دارالحکومت اسلام آباد ڈیزائن کیا تھا۔
