کاربن فری توانائی کےلیے سعودی عرب اور جاپان میں تعاون
کاربن فری توانائی کےلیے سعودی عرب اور جاپان میں تعاون
بدھ 24 فروری 2021 4:14
بلیو امونیا کی پہلی کھیپ 27 ستمبر 2020 کو سعودی عرب سے جاپان روانہ کی گئی(فوٹو عرب نیوز)
بلیو امونیا کی پہلی کھیپ 27 ستمبر 2020 کو سعودی عرب سے جاپان روانہ کی گئی تاکہ توانائی کے نظام کو کاربن فری بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے جس سے توانائی کے نظام میں ہائیڈروجن کے مزید استعمال کی راہ ہموار ہو گی۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی جاپانی تعاون ایک پائلٹ پروجیکٹ کا حصہ ہے جس میں انسٹی ٹیوٹ آف انرجی اکنامکس جاپان (آئی ای ای جے) اور سعودی آرامکو نے سعودی بیسک انڈسٹریز کارپوریشن (سابک) کے ساتھ شراکت کی ہے۔
یہ تعاون دونوں ممالک کے لیے اہم ہے کیونکہ جاپان کا مقصد ہائیڈروجن کے استعمال میں عالمی رہنما بننا جبکہ سعودی عرب اپنی توانائی کو متنوع بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ صاف توانائی میں عالمی طاقت بن کر ابھرے۔
پیرس ماحولیاتی معاہدے میں جاپان نے 2030 تک اپنے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 2013 کی سطح سے 26 فیصد تک کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ صاف توانائی کی پیداوار کے لیے ’ہائیڈروجن کے استعمال میں دنیا کی رہنمائی‘ کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جو امونیا میں موجود ہے۔
آئی ای ای جے کے چیئرمین اور سی ای او مساکازو ٹویوڈا نے ایک بیان میں کہا ’ماحولیات اور معیشت کے مابین توازن برقرار رکھنے کے لیے بلیو امونیا جاپان کے کاربن اخراج کے صفر کےعزائم کے لیے اہم ہے۔ جاپان میں تقریباً 10 فیصد بجلی 30 ملین ٹن بلیو امونیا سے پیدا کی جاسکتی ہے۔ ہم موجودہ پاور سٹیشنز میں بلیو امونیا کو فائرنگ سے شروع کر سکتے ہیں اور آخر کار 100 فیصد بلیو امونیا سے واحد فائرنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘
اس سے قبل عرب نیوز جاپان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ٹویوڈا نے وضاحت کی کہ جاپان اس وقت توانائی کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس میں زیادہ تر فوسل فیولز خاص طور پر تیل پر مشتمل ہوتا ہے۔
2011 میں فوکوشیما جوہری حادثے کے بعد جاپان کے جوہری منصوبوں کی بندش کے بعد اس کی شدت مزید بڑھ گئی تھی جس نے جاپان کو اپنے توانائی کے مکس کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا اور قدرتی گیس، تیل اور قابل تجدید توانائی کی کھپت میں اضافے کا باعث بنے حصے کو تبدیل کیا گیا۔
اس منصوبے میں سعودی عرب کے لیے پائیدار توانائی پر اپنی بڑھتی ہوئی توجہ کو موجودہ غیر مستحکم توانائی ماڈل کے حل کی تعمیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت سے بھی نمائش کرنا ضروری ہے۔
مملکت نے توانائی کی منتقلی کی ہے جس میں فوسل فیولز سے آہستہ آہستہ ہائیڈروجن پر مبنی کم کاربن توانائی کے ذرائع کی طرف اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں کے مرکز میں ان کی توانائی کی پیداوار کو متنوع بنانا ہے۔
سعودی آرامکو اور سعودی بیسک انڈسٹریز کارپوریشن (سابک) نے 40 ٹن بلیو امونیا کی تیاری سے موجودہ انفراسٹرکچر کا فائدہ اٹھایا کیوںکہ بلیو امونیا سپلائی چین سعودی آرامکو تیل اور گیس کی پیداواری سہولتوں سے شروع ہوتی ہے جہاں ہائیڈروکاربنز بلیو امونیا میں پراسس کیے جاتے ہیں۔
بلیو امونیا پروجیکٹ کے معاملے میں سعودی آرامکو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس عمل کے دوران قبضہ میں لیا گیا 50 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذریعے شپنگ چیلنجوں پر قابو پا لیا گیا۔ ان میں سے 30 ٹن سابک کے ابن سینا میتھانول پلانٹ میں استعمال ہوا۔ باقی20 ٹن عثمانیہ تیل فیلڈ میں پہنچایا گیا۔
اس کے بعد بلیو امونیا کو جاپان میں تین پیداواری یونٹس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ایوئی کا ایکبل پلانٹ جہاں امونیا کو کوئلہ کے ساتھ مل کر فائر کیا گیا، یوکوہاما میں دو میگا واٹ کا ایک پلانٹ جہاں امونیا کو قدرتی گیس کے ساتھ فائر کیا گیا تھا اور کوریما میں ایک 50 کلو واٹ مائیکرو گیس ٹربائن سائٹ۔
سعودی میڈیا کے مطابق سعودی آرامکو کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر احمد الخوئیٹر نے کہا ’یہ دنیا کے گرد پہلی شپمینٹ سمجھی جاتی ہے اور یہ آراموک کے لیے ہائیڈرو کاربن کو کم کاربن ہائیڈروجن اور امونیا کے قابل اعتماد اور سستی ذریعے کے طور پر متعارف کرانے کے لیے ایک اہم موقع کی نمائندگی کرتا ہے۔‘