انڈیا میں ایک 23 سالہ لڑکی کی خود کشی نے ایک پرانی بحث کو تازہ کر دیا ہے۔ ریاست راجستھان سے تعلق رکھنے والی اور ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی رہائشی عائشہ عارف خان نے سابرمتی دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے سے قبل ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ بظاہر پرسکون نظر آ رہی ہیں۔ جوانی میں یہ انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے ویڈیو میں دوبارہ کبھی انسانوں کی شکل نہ دیکھنے کی دعا کی۔
ان کی خودکشی کے بعد مسلم سماج میں جہیز کی لعنت پر ایک بار پھر سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ گذشتہ دنوں ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہی اور لوگ عائشہ خان کی موت پر دل گرفتہ نظر آئے۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا، پاکستان کے سیزفائر پر کشمیری خوشNode ID: 544581
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ انڈیا میں مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے۔ اس کے صدر مولانا ولی رحمانی نے معاملے پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے اندوہناک واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اسے مذہبی رنگ نہ دیا جائے کیونکہ اس طرح کے واقعات کسی بھی سماج کے لیے افسوس ناک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس واقعے سے پورے سماج کو اور بطور خاص مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے اور معاشرے سے جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ شریعت میں 'جہیز لینا اور دینا دونوں جائز نہیں لیکن لوگ اس کی پیروی نہیں کرتے۔' سسرال میں بہوؤں کو تنگ کیے جانے اور جہیز کے لیے رقم کے مطالبے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ادارے کی کوششیں پہلے سے جاری ہیں۔
She Took Her Life While Smiling!#Ayesha (23) was deserted & harassed by Aarif Khan(husband) & his family who is from Jalore, #Rajasthan. She committed suicide by jumping into the river Sabarmati #Ahmedabad. Now the question is, will she get Justice?
May Her Soul Rest In Peace pic.twitter.com/97YKG7HZsm— Youth Against Rape ® (@yaifoundations) February 28, 2021
خیال رہے کہ عائشہ عارف کے والد نے الزام لگایا کہ عائشہ کے سسرال والوں نے شادی کے بعد گذشتہ سال ان سے دس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا جسے وہ پورا نہیں کر سکے کیونکہ وہ غریب ہیں اور مشکل سے ان کا گزارہ ہو رہا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق خودکشی کرنے والی عائشہ خان کے والد درزی ہیں جبکہ ان کے دو بیٹوں نے مالی مشکلات کے سبب تعلیم ادھوری چھوڑ دی تھی۔ عائشہ خان کا ایک بھائی میکنک ہے جبکہ دوسرے نے بیمہ ایجنٹ کی حیثیت سے کام شروع کیا ہے۔ عائشہ پڑھنے میں اچھی تھیں اور انھوں نے گریجویشن کر لی تھی تاہم وہ شادی کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ شعبۂ نسواں کی اسماء زہرہ نے بھی عائشہ کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کی اپیل کرتے جہیز والی شادیوں کے بائیکاٹ کی بات کی ہے۔
بعض ہندو سوشل میڈیا صارفین نے لکھا ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا معاشرہ جہیز سے پاک ہے لیکن اس واقعے نے اجاگر کر دیا کہ یہ لعنت وہاں بھی موجود ہے۔
ایک صارف نے لکھا: 'جہیز کیا ہے یہ اس باپ سے پوچھو جس کی زمین بھی گئی اور بیٹی بھی۔۔۔ معاف کرنا عائشہ، ہم انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں، کوئی لفظ نہیں صرف آنسو۔ آپ کی روح کو سکون نصیب ہو۔'
کہا جاتا ہے کہ عائشہ نے خودکشی سے پہلے اپنے شوہر سے بات کی تھی جس نے اسے کہا تھا کہ مرنے سے پہلے ویڈیو بنا کر بھیج دینا۔
آل انڈیا اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان نے کہا ہے کہ ’آپ خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، آپ اس جہیز کی لعنت کو ختم کریں۔‘
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں