Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کے انتخابی نتائج کا اس کے عرب پڑوسیوں اور فلسطینیوں پر کیا اثر پڑے گا؟

اگر نیتن یاہو عہدے پر قائم رہتے ہیں تو انصاف کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں کا رجحان برقرار رہے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ صرف اسرائیلی ہی نہیں ہیں جو اپنے نہ ختم ہونے والے انتخابات کے عادی ہو رہے ہیں، یہ ہفتہ دو سالوں میں انتخابات کا چوتھا دور ہے۔
پورے خطے کو اسرائیل کی پالیسیوں کے اپنے ہمسایوں خصوصاً فلسطین پر پر پڑنے والے اثرات پر غور کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اسرائیلی سیاسی نظام کے داخلی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو اس سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بے چینی کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔
منگل کو ہونے والے عام انتخابات اس سے پہلے ہونے والے تین انتخابات سے زیادہ فیصلہ کن نتائج کی ضمانت نہیں دیتے۔
اس دوران موجودہ وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں چلا رہے ہیں جو ضروری نہیں ملک اور عوام کے مفاد میں ہوں۔ ان کی پہلی اور سب سے اہم ترجیح اپنے عہدے پر برقرار رہنا اور کرپشن مقدمات سے بچنا ہے۔
اسرائیلی ووٹرز اور عالمی برداری دونوں کے لیے نیتن ہاہو کی بدعنوانی کے خلاف شروع ہونے والی چار سال سے زائد عرصے کی تحقیقات میں یہ جاننا ناممکن ہو گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی کون سے پالیسی حقیقی تزویراتی نقطہ نظر سے قائم ہے اور کون سی نیتن ہایو کی جانب سے اپنے ٹرائل کو پٹری سے اتارنے اور سزا سے بچنے کے لیے ہیں۔
انتخابات کے بعد کے مختلف ممکنہ منظرناموں کے جائزہ میں جہاں تک خطے میں اسرائیل کی پالیسیوں کا تعلق ہے، کوئی بھی ڈرامائی تبدیلیوں کی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ چاہے نیتن یاہو رہے یا چلے جائیں۔
سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اگر نیتن یاہو عہدے پر قائم رہتے ہیں تو انصاف کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں کا رجحان برقرار رہے گا اور اس سے مہم جوئی اور ان کے دائیں بازو کے حامیوں کو تقویت ملے گی۔
اگر منگل کے انتخابات کے بعد سیاست میں ان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومت ختم ہو جائے اور اس میں معتدل عناصر شامل ہو جائیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
 

شیئر: