Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں ’غیرت کے نام‘ پر فلم ڈائریکٹر کا قتل

خرم الدین کی والدہ اور والد دونوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
والدین کی جانب سے مبینہ طور پر قتل کرنے کے بعد ایک ایرانی فلم ڈائریکٹر کی باقیات ملی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق بابک خرم الدین جو لندن میں کام کرتے تھے، ان کو غیرشادی شدہ حیثیت پر والد کے ساتھ بحث کے بعد نام نہاد ’غیرت کے نام پر قتل‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
تہران کے کریمنل کورٹ کے سربراہ محمد شہریاری کا کہنا ہے کہ خرم الدین کے والد نے اپنے بیٹے کے جسم کو کاٹنے اور اس کو پھینکنے سے پہلے اس کو  بے ہوش کرنے اور قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
بابک خرم الدین کی باقیات اتوار کو جنوبی تہران کے علاقے اکباتان میں کوڑے کے ایک تھیلے اور ایک سوٹ کیس سے ملے۔ اکباتان میں خرم الدین کا خاندان مقیم ہے۔
ایرانی پولیس کا کہنا ہے کہ مزید شواہد ان کے گھر سے ملے۔ خرم الدین کی والدہ اور والد دونوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
خرم الدین کی عمر 47 سال تھی، اس نے 2009 میں یونیورسٹی آف تہران سے سینیما میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی اور ایک سال بعد وہ لندن چلے گئے۔
ایران انٹرنیشنل ٹی وی کے مدیر اور مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار جیسن براڈسکی نے ڈیلی میل کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں بابک خرم الدین کی خوفناک موت گھریلو تشدد کی تازہ ترین مثال ہے جو ہم نے ایران میں دیکھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ علی فضلی منفرد کی المناک موت کے بعد ہے۔ علی فضلی منفرد کو ان کے خاندان کے افراد نے اس لیے قتل کیا کہ وہ ہم جنس پرست تھا۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس 14 سالہ رومنیہ اشفرافی کا سر اس کے والد نے غیرت کے نام پر قلم کیا۔‘
ایران میں 2020 میں بچوں کے تحفظ کا قانون منظور ہونے کے باوجود غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات بدستور جاری ہیں۔

شیئر: