Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے والے اسسٹنٹ پروفیسر کو 8 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ

خاتون ٹیچر نے ہراسیت کے خلاف ایف آئی اے کو شکایت درج کروائی تھی (فوٹو: گیٹی امیجز)
کراچی میں قائم ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر کو انٹرنیٹ کے ذریعے خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں 8 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
ضلع شرقی کی عدالت نے بدھ کو کیس کی سماعت میں دونوں فریقین کے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔ عدالت نے ڈاکٹر فرحان کامرانی، جو 2016 میں جامعہ کراچی کے سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات تھے، انہیں خاتون کولیگ کو ہراساں کرنے کا مرتکب پاتے ہوئے سزاوار ٹھہرایا۔

 

ڈسٹرکٹ سیشن جج خالد حسین شہانی نے پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کے تحت شکایت کنندہ کی عزت اُچھالنے اور بدنام کرنے کے جرم میں فرحان کامرانی کو تین سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 419 اور دفعہ 500 کے تحت بالترتیب تین سال اور دو سال قید کی سزا سنائی۔
تفصیلات کے مطابق خاتون ٹیچر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو شکایت درج کروائی تھی کہ کسی نے گرینویچ یونیورسٹی کے پیچ پر ایک لنک شیئر کیا ہے جس میں ایسی برہنہ تصاویر ہیں جن پر ان کی شکل ایڈیٹ کر کے لگائی گئی ہے۔
تحقیقاتی افسر نے اس حوالے سے فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ان خاتون ٹیچر کے نام سے بنائی گئی اس فیک فیس بک آئی ڈی کی تفصیلات طلب کیں۔

جامعہ کراچی کے فرحان کامرانی نے خاتون ٹیچر کی جعلی آئی ڈی بنانے اور نازیبا مواد اپلوڈ کرنے کا اقرار کیا (فوٹو: کراچی یونیورسٹی ویب سائٹ)

بعد ازاں، معلومات حاصل ہونے پر فرحان کامرانی کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا جنہوں نے دوران تفتیش خاتون ٹیچر کی جعلی آئی ڈی بنانے، اور نازیبا مواد اپلوڈ کرنے کا اقرار کیا۔
سپیشل پبلک پراسیکیوٹر ذاکر حسین نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ ’براڈبینڈ موڈیم، کمپیوٹر اور موبائل فون کو فورینزک کے لیے تحویل میں لے لیا گیا تھا جس سے شواہد حاصل کیے گئے۔ خاتون ٹیچر کی درخواست پر پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

شیئر: