اعمال پر مداومت ، نبی کریمﷺ کا اسوۂ حسنہ
جس کام کے کرنے کا جو وقت آپ نے مقرر فرمایا ہوتا، اُس میں کبھی تبدیلی نہ ہوتی تھی،ملنے جلنے کے طرز و انداز میں کبھی فرق نہ آیا
مولاناامان اللہ اسماعیل ۔جدہ
اللہ رب العزت نے تمام انسا نیت کیلئے اپنے رسول کو نمو نہ بنا کر بھیجا ہے۔ اب یہ نمو نہ قیامت تک کے آنے والے انسانو ں کیلئے ہے، اسلئے ظاہر ہے اس کو کامل ترین ہو نا چاہئے۔ آپ ہیں بھی کامل اور اتم ترین اسی لئے ہمارے لئے اسو ۂ حسنہ ہیں۔
اعمال میں مستقل مزا جی ایک ایسا وصف ہے جو ہر عمل کی جان ہے، چاہے وہ دینی عمل ہو یا دنیا وی۔ اگر عمل میں مستقل مزا جی نہ ہو تو اس سے ظا ہر ہو تا ہے کہ جو کام شروع کیا گیا ہے وہ بغیر سو چے سمجھے کیا گیا۔ شریعتِ الٰہی یہی کچھ ہمیں سکھا نا چاہتی ہے کہ ہم ہر عمل کو خو ب غور و فکر اور اوقاتِ زندگی کا صحیح تجزیہ کر نے کے بعد شروع کریں تا کہ اس عمل میں ٹھہراؤ پیدا ہو اور دو سرے کا مو ں میں بھی حرج نہ ہو۔ یہی تدابیر اور منصو بہ بندی مومن کا وصف ہو نا چاہئے۔ مدا ومتِ عمل کی تعلیم ہمیں آپکی سیرت مبارکہ میں بھرپور طریقے سے ملتی ہے۔
اخلاق کا سب سے مقدم اور ضروری پہلو یہ ہے کہ انسان جس کام کو اختیار کرے، اس پر اس قدر استقلال کیساتھ قائم رہے کہ گویا وہ اسکی فطرت ثانیہ بن جائے۔ انسان کے سوا دنیا کی تمام مخلوقات صرف ایک ہی قسم کا کام کرسکتی ہیں اور وہ فطرتاًاسی پر مجبور ہیں۔ مثلاً آفتاب صرف روشنی بخشتا ہے، اس سے تاریکی کا صدور نہیں ہوسکتا، رات تاریکی ہی پھیلاتی ہے، وہ روشنی کی علت نہیں، درخت اپنے موسم ہی میں پھل دیتے ہیں اور پھول ایامِ بہار ہی میں پھولتے ہیں۔ حیوانات کا ایک ایک نوع اپنے فطری افعال و اخلاق سے سر موتجاوز نہیں کرسکتا لیکن انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختار پیدا ہوا ہے، وہ آفتاب بھی ہے اور رات کی تاریکی بھی، اس کے جوہر کا درخت ہر موسم میں پھلتا ہے، اسکے اخلاق کے پھول ایامِ بہار کے پابند نہیں، وہ حیوانات کی طرح کسی خاص قسم کے اعمال و اخلاق پر مجبور نہیں، اسکو اختیار دیا گیا ہے اور یہی اختیار اسکے مکلف اور ذمہ دار ہونے کا راز ہے۔ اخلاق کا ایک دقیق نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنے لئے اخلاقِ حسنہ کا جو پہلو پسند کرے، اسکی شدت سے پابندی کرے اور اس طرح دائمی اور غیر متبدل طریقے سے اس پر عمل کرے کہ گویا وہ اپنے اختیار کے باوجود اس کام کے کرنے پر مجبور ہے ۔ لوگ دیکھتے دیکھتے یہ یقین کرلیں کہ اس شخص سے اس کے علاوہ اور کوئی بات سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔ گویا اس سے یہ افعال اس طرح صادر ہوتے ہیں جیسے آفتاب سے روشنی، درخت سے پھل اور پھول سے خوشبو۔ یہ اس طرح کی خصوصیات ہیں کہ ان سے کسی حالت میں الگ نہیں ہوسکتیں، اسی کا نام استقامتِ حال اور ہمیشگی عمل ہے۔
رسول اللہ اپنے تمام کاموں میں اسی اصول کی پابندی فرماتے تھے۔ جس کام کو جس طریقہ سے جس وقت آپ نے شروع فرمایا، اس پر برابر قائم رہتے تھے۔ سنت کا لفظ ہماری شریعت میں اسی اصول سے پیدا ہوا ہے۔ سنت وہ فعل ہے جس پر آنحضرت نے ہمیشہ مداومت فرمائی ہے اور بغیر کسی قوی رکاوٹ کے کبھی اس کو ترک نہیں فرمایا۔ اس بنا پر جس قدر سنن ہیں وہ درحقیقت آپ کی استقامتِ حال اور مداومتِ (یعنی ہمیشہ یا ثابت قدمی کیساتھ )عمل کی ناقابلِ انکار مثالیں ہیں۔ آپ کے معمولات کا ذکرپوری سیرت میں موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے تمام اخلاق و اعمال کس قدر پختہ اور مستحکم تھے۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے آنحضرت کی عبادات و اعمال میں سے کسی عمل کے متعلق حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ کیا آپ کسی خاص دن یہ عمل کرتے تھے؟۔ انہوں نے جواب دیا:آپ کا عمل مبارک جھڑی ہوتا تھا۔
یعنی جس طرح بادل کی جھڑی برسنے پر آتی ہے تو نہیں رُکتی، اسی طرح آپ کا حال تھا کہ جو بات ایک مرتبہ آپ نے اختیار فرمالی، ہمیشہ اس کی پابندی فرمائی، پھر فرمایا: رسول اللہ جو کرسکتے تھے، وہ تم میں سے کون کرسکتا ہے؟( بخاری) ۔
دوسری روایت میں ہے: جب رسول اللہ کوئی کام کرتے تھے تو اس پر مداومت فرماتے تھے (ابوادؤد)۔
اسلئے آنحضرت کا خود ارشاد ہے:’’ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر سب سے زیادہ انسان مداومت کرے۔‘‘
آپ راتوں کو اُٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں: آنحضرت نے کبھی رات کی عبادت ترک نہیں کی، اگر کبھی مزاجِ اقدس ناساز ہوا تو بیٹھ کر ادا کرتے تھے (ابو دائود) ۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ ایک صحابی ہیں جن کو دیکھ کر آپ محبت سے مسکرا دیا کرتے تھے۔ اُن کا بیان ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور آپ مسکرا ئے نہ ہوں ( مسلم )۔
جس کام کے کرنے کا جو وقت آپ نے مقرر فرمایا ہوتا، اُس میں کبھی تبدیلی نہ ہوتی۔ نماز، تسبیح و تہلیل کے اوقات، نوافل کی تعداد، خواب اور بیداری کے مقررہ ساعات، ہر شخص سے ملنے جلنے کے طرز و انداز میں کبھی فرق نہ آیا۔ مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل یہی ہونا چاہئے مگر افسو س صد افسو س کہ مسلمان آج اپنے نبی کریمکے طرزِعمل کو بالکل بھلا چکا ہے۔
نبی کریم کے اسوہ ٔحسنہ میں آپ کا حسن خلق بھی شامل ہے۔’’ حسن خلق‘‘، اخلا ق کے با رے میں ایک جامع اصطلا ح ہے کہ انسان کی پو ری زندگی کے تمام معاملات اخلا ق کے دا ئرے میں ہوں۔ اس کا اٹھنا ،بیٹھنا ،اس کا لین دین، تجارت و معا شرت ،اس کا لوگو ں سے ملنا جلنا حتیٰ کہ جنگ و صلح تک اخلا ق کے دا ئرے میں ہو ں۔ اسی طرز عمل کا ہم سے شریعت الہٰی تقا ضا کر تی ہے۔ ہمیں حضو ر نبی کریمکی زندگی کا یہی پہلو اپنے سامنے رکھتے ہو ئے زندگی گزا رنی چاہئے اور زندگی کی انہی سنتوں کو ہمیں زندہ کرنا ہے۔
حضرت علیؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت انسؓ اورحضرت ہندؓ بن ابی ہالہ وغیرہ جو مدتوں آپ کی خدمت میں رہے ، ان سب کا متفقہ بیان ہے کہ آپ نہایت نرم مزاج، خوش اخلاق اور عمدہ سیرت کے مالک تھے۔ آپ کا چہرۂ مبارک ہنستا ہوا ہوتا تھا۔ آپ وقار و متانت سے گفتگو فرماتے تھے کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے۔معمول یہ تھا کہ کسی سے ملتے وقت ہمیشہ پہلے خود سلام و مصافحہ فرماتے۔ کوئی شخص جھک کر آپ کے کان میں کچھ بات کہتا تو اس وقت تک اس کی طرف سے رخ نہ پھیرتے جب تک وہ خود منہ نہ ہٹالے۔ مصافحہ میں بھی یہی معمول تھا، یعنی کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک وہ خود نہ چھوڑ دے، اُس کا ہاتھ نہ چھوڑتے۔ مجلس میں بیٹھتے تو آپ کے زانوں کبھی ہم نشینوں سے آگے نکلے ہوئے نہیں ہوتے تھے(ابو دائود و ترمذی) ۔
اکثرخادم خدمت اقدس میں پانی لے کر آتے کہ آپ اس میں ہاتھ ڈالدیں تاکہ متبرک ہوجائے، جاڑے کا دن اور صبح کا وقت ہوتا تاہم آپ کبھی انکار نہ فرماتے تھے ( مسلم)۔
ایک دفعہ رسول اللہ حضرت سعد بن عبادہؓ سے ملنے تشریف گئے۔ واپس تشریف لانے لگے تو انہوں نے اپنے صاحبزادے حضرت قیسؓ کو ساتھ کردیا کہ آنحضرت کے ساتھ سوار ہو کر جائیں۔ آنحضرت نے حضرت قیسؓ سے فرمایا کہ تم بھی میرے اونٹ پر سوار ہو۔ انہوں نے بے ادبی کے لحاظ سے معذرت کی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یاسوار ہو لو یا گھر واپس جائو، وہ واپس چلے آئے (ابو دائود)۔
ایک دفعہ نجاشی کے ہاں سے ایک سفارت آئی۔ آپ نے اس کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور خود بہ نفس نفیس مہمانداری کے تمام کام انجام دیئے۔ صحابہ کرامؓنے عرض کی کہ ہم یہ خدمت انجام دیں گے،جس پرارشاد فرمایا :’’ ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت گزاری کی ہے، اسلئے میں خود ان کی خدمت گزاری کرناچاہتا ہوں۔‘‘ ( دلائل بیہقی )۔
حضرت عتبان ؓ بن مالک جو اصحابِ بدر میں سے تھے، ان کی بینائی میں فرق آگیا۔ آنحضرت کی خدمت میں آکر درخواست کی کہ میں اپنی مسجد میں نماز پڑھتا ہوں لیکن جب بارش ہو جاتی ہے تو مسجد تک جانا مشکل ہوجاتا ہے اسلئے اگر آپ میرے گھر میں تشریف لاکر نماز پڑھ لیتے تو میں اسی جگہ کو سجدہ گاہ بنالیتا۔ دوسرے دن صبح کے وقت آپ حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر ان کے گھر تشریف لے گئے اور دروازہ پر ٹھہرکراجازت چاہی۔ اندر سے جواب آیا تو گھر میں تشریف لے گئے اور دریافت فرمایا کہ’’ کہاں نماز پڑھوں؟‘‘انہوں نے جگہ بتادی۔ آپ نے تکبیر کہہ کر 2رکعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد لوگوں نے کھانے کیلئے اصرار کیا۔تمام لوگ کھانے میں شریک ہوئے۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ ابن مالکؓ نظر نہیں آتے ؟کسی نے کہہ دیا کہ وہ منافق ہے،اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ’’ یہ نہ کہو، وہ لا الہ الا اللہ کہتے ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا کہ ہاں! ان کا میلان منافقین کی طرف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’جو شخص اللہ کی رضا کیلئے لا الہ الا اللہ کہتا ہے،اللہ اس پر آگ کو حرام کردیتا ہے۔ ‘‘(بخاری)۔
ابتدائے ہجرت میں خود آنحضرت اور تمام مہاجرین، انصار کے گھروں میں مہمان رہے تھے۔10،10 آدمیوں کی ایک ایک جماعت ایک ایک گھر میں مہمان اتاری گئی تھی۔ حضرت مقداد بن الا سود ؓ کہتے ہیں کہ میں اس جماعت میں تھا جس میں خود آنحضرت شامل تھے۔ گھر میں چند بکریاں تھیں، جن کے دودھ پر گزارا تھا۔ میں دودھ دو ہ چکتا تو سب لوگ اپنے اپنے حصے کا پی لیتے اور آپ کیلئے پیالہ میں چھوڑ دیتے۔ ایک شب کا واقعہ ہے کہ آنحضرت کی تشریف آوری میں تاخیر ہوئی۔ لوگ دودھ پی کر سو گئے، آپ نے آکر دیکھا تو پیالہ خالی پایا۔ خاموش ہو رہے، پھر فرمایا، یا اللہ ! جو آج کھلا دے، اس کو تو بھی کھلا دینا۔ حضرت مقدادؓ چھری لے کر کھڑے ہوئے کہ بکری کو ذبح کرکے گوشت پکائیں۔ آپ نے روکا اور بکری کو دوبارہ دُوہ کر جو کچھ نکلا ،اسی کو پی کر سو گئے اور کسی کو اس فعل پر ملامت نہ کی(مسند)۔
حضرت ابو شعیبؓ ایک انصاری صحابی تھے، ان کا غلام بازار میں گوشت کی دکان رکھتا تھا۔ ایک دن وہ صحابی خدمت اقدس میں آئے۔ آپ صحابہ کے حلقہ میں تشریف فرما تھے اور چہرہ سے بھوک کے آثار معلوم ہو رہے تھے۔ حضرت ابو شعیبؓ نے جاکر غلام سے کہا کہ5 آدمیوں کا کھانا تیار کرو۔ جب کھانا تیار ہوچکا تو حضرت ابوشعیبؓ نے آنحضرت سے درخواست کی کہ آپ صحابہ کے ساتھ تشریف لے آئیں۔ کل5 آدمی تھے، راہ میں ایک اور شخص ساتھ ہولیا۔ آنحضرت نے فرمایا کہ ابو شعیبؓ سے کہو کہ یہ شخص بے کہے ساتھ ہولیا ہے، تم اجازت دو تو یہ بھی ساتھ آئے ورنہ رخصت کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ان کو بھی ساتھ لے آئیں (بخاری) ۔
رسول اللہ مجالسِ صحبت میں لوگوں کی ناگوار باتوں کو برداشت فرماتے اور خفگی کا اظہار بھی نہیں فرماتے تھے۔آپ کاحضرت زینب ؓسے جب نکاح ہوا اور دعوتِ ولیمہ کی تو کچھ لوگ کھانا کھا کر وہیں بیٹھے رہے، اس وقت پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ حضرت زینبؓ بھی مجلس میں شریک تھیں۔ آپ چاہتے تھے کہ لوگ اٹھ جائیں لیکن زبان سے کچھ نہیں فرمارہے تھے۔ لوگوں نے کچھ خیال نہ کیا۔ آپ اٹھ کر حضرت عائشہؓ کے حجرہ تک گئے اور واپس آئے تو اسی طرح مجمع موجود تھا۔ آپ واپس چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے، پردہ کی آیات اسی موقع پر اتری (بخاری) ۔