امجد صابری 2016 میں کراچی میں قتل ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پانچ سال قبل معروف قوال امجد صابری کو کراچی میں قتل کردیا گیا تھا، تاہم آج بھی یہ موضوع قابلِ بحث ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے محرکات اور اسبابِ کیا تھے۔
شعیہ سنی فساد، مبینہ توہینِ رسالت یا پھر سیاسی وابستگی، تفتیش کاروں نے گاہے بگاہے تمام تر توجیہات پیش کیں، اور بعد ازاں خود ہی ان کی نفی کر دی۔
حتیٰ کہ پولیس بھی امجد صابری کے قتل میں ملوث مجرمان کی گرفتاری کے حوالے سے الجھن کا شکار نظر آئی اور ایک سے زائد گروہوں کو اس کارروائی کے الزام میں گرفتار کر کے پریس کانفرنس کی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کراچی میں ہائی پروفائل شخصیت کا قتل ہوا ہو، لیکن پھر بھی اس قتل میں ایسا کیا تھا کہ آج بھی ذہن ماننے کو تیار نہیں کہ کسی بھی جماعت یا گروہ کی امجد صابری سے بھی دشمنی ہو سکتی تھی۔
ایک ایسا شخص جو تمام مسالک اور فرقوں میں یکساں مقبول تھا، جو اپنے فن میں یکتا تھا لیکن اس بات نے کبھی اسے غرور میں مبتلا نہیں کیا۔
وہ شام میں شہر کی اشرافیہ کے پرتعیش عشائیہ کا مہمان خصوصی ہوتا تھا، اور رات میں کراچی کے متوسط آبادی کی ایک گلی کے نکڑ پر قائم کھوکھے میں ڈبو کھیلتا بھی مل جاتا تھا۔ جس کی آواز کا سحر ایسا کہ ہر مسلک کے لوگ دنیا بھر میں اپنی محفلوں میں بلاتے، اور عاجز ایسا کہ جب بھی کلام پڑھا فرش پر بیٹھ کہ پڑھا کبھی خود کو منبر پر براجمان نہیں کیا۔
امجد صابری اصولوں کے آدمی تھے، اپنے باپ اور دادا سے قوالی کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے اس میراث کو محفوظ کیا اور اسے نکھار کر آگے بڑھایا۔
ان کے قتل کے فوراً بعد ہی تحریک طالبان پاکستان نے انہیں قتل کرنے کی ذمہ داری لیتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ ’امجد صابری کو مبینہ توہینِ رسالت کی پاداش میں قتل کیا گیا ہے۔‘
مگر بعد ازاں پولیس کی تفتیش اور اس حوالے سے ہونے والے گرفتاریوں سے واضح ہوا کہ اس بیان میں کچھ زیادہ صداقت نہ تھی۔
امجد صابری کے قتل سے قبل بھی کراچی میں متعدد نامور شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، اور ان میں سے بیشتر کے قاتلوں کی نشاندہی آج تک نہیں ہو سکی۔
معروف سکالر اور جامعہ کراچی کے پروفیسر شکیل اوج، جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر وحید الرحمان جو ڈاکٹر اوج کے شاگرد تھے، تحریک انصاف کی سینئر رہنما زہرا شاہد، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان، پولیس کاونٹر ٹیراریزم ڈپارٹمنٹ کے ایس پی چوہدری اسلم، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ساجد قریشی اور ایسے کئی افراد ہیں جنہیں امجد صابری کے قتل سے قبل پانچ سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں قتل کیا گیا۔
مندرجہ بالا واقعات کا بغور جائزہ لیں تو فرقہ وارانہ یا لسانی تعصب، یا کسی مافیا کو ان کا ذمہ قرار دیا جا سکتا ہے اور ان شخصیات کے قتل کے اسباب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن امجد صابری کا قتل ان سب سے مختلف ہے۔
تحریک طالبان کے بیان کے تناظر میں دیکھیں تو ایک مارننگ شو میں کہی کوئی بات ان کی موت کی وجہ بنی۔ لیکن اگر بعد میں ان ملزمان کے بیان کو سنیں، جنہیں پولیس نے قتل کے جرم میں گرفتار کیا، تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید امجد صابری نے کسی بھتے کی ادائیگی سے انکار کیا تھا جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔
وجہ جو بھی ہو، لیکن ایک آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی جو اس شہر کی پہچان تھی، جس سے یہ پورا شہر شناسا تھا اور بلااختلاف تمام شہری اسے اپنا مانتے تھے۔