برطانوی حکومت کے مطابق ان دستاویزات میں جنگی جہاز کی کریمین ساحل میں نقل و حرکت کی تفصیلات درج تھیں جس پر روس نے انتباہی فائرنگ بھی کی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی حکومت اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آخر یہ دستاویزات بس سٹاپ تک کیسے پہنچیں۔
برطانوی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ’’ایک ملازم نے پچھلے ہفتے بتایا تھا کہ دستاویزات کھو گئی ہیں جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔‘
اس حوالے سے شمالی آئرلینڈ کے وزیر برینڈن لیوس نے سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انہیں 50 صفحات پر مشتمل یہ خفیہ دستاویزات جنوبی انگلینڈ کے شہر کینٹ میں واقع بس سٹاپ کے پیچھے سے ملیں ہیں۔‘
بی بی سی کے مطابق ملنے والے دستاویزات میں کریمیا کے ساحل سے دور یوکرین کے سمندر سے گزرتے ہوئے برطانیہ کے ایچ ایم ایس محافظوں کے بارے میں ممکنہ روسی ردعمل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
روس نے گذشتہ بدھ کو کہا تھا کہ اس نے بحیرہ اسود میں ایک جنگی جہاز پر انتباہی فائرنگ کی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ یہ اس کی سمندری حدود کی خلاف ورزی ہے۔‘
تاہم برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ بین الااقومی قانون کے مطابق یوکرین کی سمندری حدود سے آرام سے گزر رہا تھا۔
ماسکو کے مطابق ’یہ واقعہ کریمیا کے ساحل ’کیپ فاولینٹ‘ پر پیش آیا تھا، جسے سنہ 2014 میں روس نے یوکرین سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس اقدام کو عالمی برداری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
دستاویز سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی عہداروں کو یہ معلوم تھا کہ اس راستے پر سفر روسیوں کے ممکنہ ردعمل کا سبب بن سکتا ہے تاہم ماسکو متبادل راستہ اختیار کرنے کو ’برطانیہ کا خوف یا ڈر کے فرار ہونا سمجھ سکتا تھا۔‘
روس کے وزارت خارجہ نے جمعرات کو برطانوی سفیر کو طلب کر کے اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔