اوورسیز پاکستانیوں کو ’ویکسین کی جگہ ڈنڈے‘، ذمہ دار کون؟
اوورسیز پاکستانیوں کو ’ویکسین کی جگہ ڈنڈے‘، ذمہ دار کون؟
پیر 5 جولائی 2021 13:14
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ویکسین سینٹرز میں وزارت سمندر پار پاکستانی اپنا ڈیسک لگا کر سہولت فراہم کر سکتی ہے (فوٹو: روئٹرز)
بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کو ویکسین نہ ملنے کا معاملہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں اٹھایا گیا ہے جہاں وزارت کے حکام نے بتایا ہے کہ وہ این سی او سی سے مستقل رابطے میں ہیں۔
پیر کو کمیٹی کے اجلاس میں بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو کورونا ویکسین کی عدم دستیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کمیٹی کی رکن مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ اسلام آباد کے ماس ویکسینیشن سینٹرز میں 9 ہزار افراد نے احتجاج کیا، اوورسیز پاکستانیوں کو ویکسین کی جگہ ڈنڈے مارے جا رہے ہیں۔
وفاقی سیکریٹری اوورسیز پاکستانی نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ ویکسین فراہم کرنے کے معاملے پر این سی او سی سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے تین ویکسینز بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے مختص کر دی گئی ہے اور یہ کہ معاملہ ان کی وزارت کے تحت نہیں آتا۔
مہرین رزاق بھٹو نے کہا کہ ویکسین سینٹرز میں وزارت سمندر پار پاکستانی اپنا ڈیسک لگا کر سہولت فراہم کر سکتی ہے لیکن بد قسمتی سے اس حوالے سے وزارت نے خود کو لاتعلق رکھا ہوا ہے۔
سیکریٹری وزارت سمندر پار پاکستانی نے برطانیہ کی جان سے پاکستان کو سفر کی ریڈ لسٹ میں شامل کیے جانے پر بریفنگ میں بتایا کہ 'پاکستان کی جعلی لیب رپورٹس اور غیر مستند ڈیٹا کی وجہ سے برطانیہ نے پاکستان کا نام ریڈ لسٹ میں شامل کیا۔'
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے اجلاس میں وفاقی سیکریٹری عشرت علی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے برطانیہ سے ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا جس پر برطانیہ نے پاکستان کی لیبارٹریز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کا نام ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کی وجہ غیر مستند ڈیٹا ہے۔
چیئرمین کمیٹی شیخ فیاض الدین کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت خارجہ کی جانب سے ڈائریکٹر یورپ حذیفہ خانم نے بریفنگ دہتے ہوئے بتایا کہ 'وزیراعظم عمران خان نے برطانوی وزیراعظم کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں بورس جانسن کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے کے دوران بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی ہے۔'
حذیفہ خانم نے کمیٹی کو بتایا کہ 'برطانوی وزیراعظم نے وزیر اعظم عمران خان کو کہا ہے کہ ریڈ لسٹ سائنٹیفیک ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے اور اس وقت پاکستان سے آنے والے مسافروں کی بڑی تعداد برطانیہ پہنچنے پر کورونا مثبت رپورٹ ہوئی۔'
حذیفہ خانم کے مطابق برطانوی سائنٹیفک ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کا نام ریڈ لسٹ میں شامل کیا گیا۔
کمیٹی کی رکن مہرین رزاق بھٹو نے سوال اٹھایا کہ 'برطانیہ پہنچنے والے کتنے پاکستانی کورونا مثبت رپورٹ ہوئے ہیں؟' جس پر وزارت خارجہ کی نمائندہ نے جواب دیا کہ ’برطانیہ نے ہمارے ساتھ ایسا کوئی ڈیٹا شیئر نہیں کیا تاہم وزارت خارجہ کی مسلسل کوشش ہے کہ پاکستان کا نام ریڈ لسٹ سے خارج کروائے۔‘