Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حافظ آباد میں چھ دنوں میں چار بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات

6 اور 12 جولائی کے درمیان حافظ آباد میں زیادتی کے چار واقعات ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
’میں ایک مزدور ہوں اور بھرائی کا کام کرتا ہوں۔ ہر روز مزدوری ڈھونڈنے نکل جاتا ہوں۔ نو جولائی کو بھی میں صبح سویرے ہی نکل گیا۔ جب رات کو واپس آیا تو میری دنیا ہی اندھیر ہو چکی تھی۔‘
پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں گذشتہ ہفتے ہونے والا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کو سناتے ہوئے کمسن مریم (فرضی نام) کے والد کے آنسو تھم ہی نہیں رہے تھے۔
’ہم تو یقین نہیں کر پا رہے کہ جس شخص نے یہ ظلم کیا ہے وہ ہمارے ہی محلے کا ہے اور بچوں کو اکثر کھانے پینے کی اشیا بھی دیتا تھا۔‘  
کم سن بچی کی عمر صرف سات سال ہے جو نہ سن سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔
’گھر واپس آیا تو میری بیوی نے بتایا کہ قریب دن ایک بجے مریم اپنے گھر کے سامنے ایک حویلی میں کھیل رہی تھی۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ گھر آئی تو اس نے روتے ہوئے اشاروں سے بتایا کہ کس طرح اس کا ریپ کیا گیا ہے۔‘  
حافظ آباد میں ہی 8 جولائی کو ہونے والے ایک اور واقعے میں 14سالہ لڑکی جس کے ہاتھ پاؤں ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے اس کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
لڑکی کے والد نے بتایا کہ وہ رکشہ چلا کر بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
’میری بیٹی گھر سے برف لینے محلے کے ایک دوسرے گھر جا رہی تھی جب گلی سے ہی میری بچی کو ایک شخص نے اغوا کر لیا۔ اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘
اہم بات یہ ہے کہ ملزم بھی اسی محلے کا ہے اور برسوں سے یہیں رہتا ہے۔

جنسی زیادتی کے واقعات کے خلاف کئی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

12 جولائی کو ضلع حافظ آباد کے تھانہ کالیکے کی حدود میں ایک چھ سالہ بچی ریحانہ (فرضی نام) کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کے والد نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ ایک معمولی زمیندار ہیں اور وہ اس وقت کھیتوں پر تھے جب شام چار بجے کے قریب ان کی بیٹی گھر کے باہر کھیلتے کھیلتے اچانک غائب ہو گئی۔
’ایک گھنٹے تک جب وہ نہیں آئی تو ہم سب اسے ڈھونڈنا شروع ہو گئے۔ شام کے قریب کچھ لوگوں نے نشاندہی کی کہ جب ریحانہ کھیل رہی تھی تو شاہد نامی ایک شخص جس کا اس گاؤں میں آنا جانا رہتا ہے وہ بچی کو بلا رہا تھا۔ جس کے فوری بعد ہم نے پولیس کو فون کیا  اور پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اس ملزم کو گرفتار کیا۔ اس نے نشاندہی کی کہ بچی کو ریپ کے بعد اس نے مار کے کہاں دفن کیا تھا۔‘  
ایک چوتھے واقعے میں 8 جولائی کو ہی حافظ آباد کے نواحی قصبے رسولپور تارڑ میں آٹھ سالہ بچے کو اس کے گھر کے قریب ہی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ٹیوشن پڑھنے کےبعد گھر واپس آرہا تھا۔  
6 اور 12 جولائی کے درمیان ہونے والے ان چار واقعات نے علاقے میں خوف کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ ضلع کے پولیس چیف رانا معصوم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے ان کیسز سے متعلق ہر اطلاع کو فوری طور پر سنجیدہ لیا اور نہ صرف فوری مقدمے درج کیے بلکہ تمام ملزمان کو گرفتار بھی کیا۔
’پورے ضلع کی پولیس نے آپریشن کیے اور ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی اور جہاں جہاں ملزم چھپے تھے سب گرفتار ہوئے۔ ابھی ہم نے ان کا ریمانڈ لے رکھا ہے اور تفتیش کر رہے ہیں۔‘ 

حافظہ آباد میں چھ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

مماثلت کیا ہے؟ 
ڈی پی او حافظ آباد کے مطابق ’ان جرائم میں بظاہر تو مماثلت نہیں ہے، یہ سب انفرادی واقعات ہیں، لیکن ایک مماثلت جو ہمیں دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ضرور ہے کہ یہ کسی منظم گینگ کا کام نہیں بلکہ ان افراد کا ہے جن سے ان بچوں کے گھر والوں نے بھی کبھی خوف محسوس نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر ہر واقعے کو دیکھا جائے تو ان میں ملوث سب لوگ ایسے ہیں کہ ان کی بچوں کے اردو گرد موجودگی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔
’ایک واقعے میں تو ریپ کرنے والا بالکل ساتھ گھر والا ہے اور گھروں کی دیواریں سانجھی ہیں۔ اور یہی سب سے خطرناک بات ہے کہ یہ ریپ کرنے والے باہر سے آئے ہوئے یا اجنبی نہیں ہیں۔ بالکہ بظاہر قابل بھروسہ تھے۔‘ 
قصور میں زینب نامی بچی کے ریپ اور قتل کے بعد جب مجرم گرفتار ہوا تو وہ بھی اسی محلے کا رہائشی تھا۔ جبکہ واقعے کے بعد وہ بچی کی تلاش میں بھی پیش پیش تھا۔  
ان کیسز میں ایک اور بھی قدر مشترک ہے کہ سب بچوں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔ 
ڈی پی او رانا معصوم کے مطابق ملزمان کا تعلق اسی محلے سے ہونے کی وجہ سے پولیس کی کوشش ہے کہ فرانزک شہادتوں کے ذریعے ان کیسز کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ اگر معاشرتی دباؤ کے سبب کوئی متاثرہ خاندان مقدمہ واپس بھی لینا چاہے تو ناقابل تردید ثبوتوں کے سبب ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو۔
’یعنی ہم محض زبانی گواہوں اور شکایت پر اکتفا نہیں کر رہے۔‘  
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا یہ کوئی لہر ہے جو پے در پے ایسے واقعات ہو رہےہیں تو ڈی پی او کا کہنا تھا کہ سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے سوچ کو تھوڑا بدلیں۔
’پولیس کا کام ملزم گرفتار کرنا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بنانا ہے۔ کڑی سزا بھی ہوجائے تو یہ کیسز تھم نہیں رہے۔ زینب کے کیس میں قاتل کو پھانسی ہو گئی لیکن آپ دیکھیں کیا ایسے واقعات میں کمی ہوئی؟ تو میرا خیال ہے کہ اجتماعی شعور اور کوشش سے ہم اس کا سدباب کر سکتے ہیں۔‘  

شیئر: