حج کے پہلے دن جب لاکھوں مسلمان منیٰ کی جانب سفر شروع کرتے ہیں تو مکہ کی خواتین مسجد الحرام کا رخ کرتی ہیں۔ یہ ان کی کافی پرانی روایت ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اسلامی کیلنڈر میں یوم عرفات کو مقدس ترین دن کا درجہ حاصل ہے۔ یہ دن نماز اور مسلمانوں کی یگانگت کے اظہار کے لیے مختص ہے۔ اسی دن کے ساتھ اہل مکہ کی یہ صدیوں پرانی روایت جڑی ہوئی ہے۔
جب لاکھوں زائرینِ حج عرفات پہاڑ کی جانب نکل پڑتے ہیں تو پیچھے مکہ، خاص طور پر مسجد الحرام میں خاموشی سی چھا جاتی ہے۔
محض چند گھنٹوں میں کعبہ کے گرد بنے مطاف میں جہاں ایک وقت میں لاکھوں افراد موجود ہوتے ہیں، ان کی جگہ خواتین آ جاتی ہیں۔ اس دن کو’ یوم الخلیف‘ کہا جاتا ہے جو ’خالی ہونے‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مکہ کی عورتیں اور بچے اس دن مسجد الحرام کی طرف جب کہ مرد زائرین کے ساتھ پانچ میل دور واقع وادی منیٰ کی طرف بڑھتے ہیں۔
ہر سال مکہ کے شہری جنہیں ’مطوّفین‘ بھی کہا جاتا ہے، عیدالفطر کے بعد ہی سے حج کے موسم کے لیے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں اور وہ ان زائرین کی آمد کے منتظر ہوتے ہیں جو جدہ کے راستے اپنے وکیلوں (ایجنٹس) کے ذریعے مکہ آتے ہیں۔ خواتین مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیےاپنے گھروں کو تیار کرتی ہیں۔ مہمان زائرین ان گھروں میں اپنے مطوّف کے ساتھ معاہدے کے مطابق قیام کرتے ہیں۔
حج سے متعلق امور میں متخصص اور ایک مطوّفہ فاطن حسین نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’زائر اور مطوف کے درمیان یہ رشتہ انتہائی مستحکم اور مالی مفادات سے ماوراء ہوتا ہے۔‘
’یہ رشتہ انسانی، روحانی اور مذہبی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ عمل مطوفین کی پہلی نسل سے اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا ہے اور یہ لوگ زائرین کی خدمت اور دیکھ بھال کو سعادت سمجھتے ہیں۔‘
ماہ ذوالحج کے آٹھویں دن شہر کے مرد (بوڑھے اور جوان) زائرین کے لیے کھانا ، خیمے اور دیگر ضروری سامان جمع کرتے ہیں اور حاجیوں کی مسجد الحرام سے منیٰ تک رہنمائی کرتے ہیں۔
فاطن حسین کے مطابق ’مطوف کے بیٹے اور بعض اوقات بیٹیاں بھی زائرین کے قافلوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں تاکہ حج کرنے والی خواتین کی مدد کی جا سکے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی زائر اپنے گروپ سے بچھڑنے نہ پائے۔‘
کورونا کی وجہ سے مسجد الحرام کی بندش سے پہلے تک مکہ کی خواتین اپنا کھانا پانی ساتھ لے کر اپنی سہیلیوں اور عزیزوں کے ہمراہ مسجد الحرام کا رخ کیا کرتی تھیں اور شام کو افطار کا اہتمام بھی وہیں کیا جاتا تھا۔
خیال رہے کہ اسلامی روایت میں ان مسلمانوں کو جو فریضہ حج ادا نہ کر رہے ہوں ، یوم عرفات کا روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
یوم عرفات کو عبادات سے فارغ ہونے کہ بعد یہ سب لوگ عید کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں اور بازاروں میں بچوں کے لیے کھلونے اور مٹھایاں خریدنے نکل پڑتے ہیں۔ دوسری جانب مکہ کی خواتین (مسجدالحرام کو خالی پا کر)اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمرہ ادا کر لیتی ہیں۔ یہ اہل مکہ اور اطراف کے رہائشوں کا عام طریقہ ہے۔
جدہ کی ایک گرافک ڈیزائنر ندا زہیر نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ اپنے بچپن میں یوم عرفات کو اپنی دادی اور پھوپھیوں کو مسجد الحرام میں جاتے ہوئے دیکھتی تھیں۔ ندا زہیر کہتی ہیں کہ ’اس وقت سے ابھی ماضی قریب تک میں نے یوم عرفات پر مکہ کا رخ کرنے والی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتے دیکھا ہے۔‘
ندا زہیر نے بتایا کہ ’سنہ 2011 میں مجھے زندگی بھر یاد رہنے والا ایک تجربہ ہوا، جب میں کعبہ کے گرد چل رہی تو میں نے اچانک پیچھے کسی کو غلاف کعبہ(کِسویٰ) کو چھوتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت میری توجہ اپنے چکر مکمل کرنے پر مرکوز تھی ۔ پھر جب میں نے موقع پاتے ہی غلاف کعبہ کو چھوا تو جس روحانی احساس کا مجھے تجربہ ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کے بعد کبھی مجھے غلاف کعبہ کو چھونے کا موقع نہیں مل سکا۔‘
ندا زہیر ’یوم الخلیف‘ سے جڑی روایت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے امید ہے کہ ایک دن میں دوبارہ وہاں جا کر غلاف کعبہ کو چھو سکوں گی، میں اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لے جاؤں گی جیسے میری دادی مجھے لے جایا کرتی تھیں تاکہ وہ بھی ویسے ہی احساسات سے ہمکنار ہو سکے۔‘
یوم عرفات کو مغرب کے بعد مکہ میں عید کی بھرپور تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ۔ بچوں کے لیے کھلونے، مٹھائیاں اور نئے کپڑے تیار کر لیے جاتے ہیں اور تین دن تک قریبی دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔
ند احسین نے بتایا کہ ’19ویں صدی میں حج کے لیے آنے والی ریاست بھوپال کی ایک شہزادی نے اپنے مکہ میں قیام اور وہاں کی خواتین کے ساتھ گزرے خوبصورت لمحات کا ذکر کیا ہے۔ زائرین کو مطوف خاندان کی طرف سے جس قدر اچھا رویہ ملتا ہے، وہ مطوف زائرین میں اتنا ہی مقبول ہو جاتا ۔ یہ ایک طرح سے ان مطوفین کی زائرین میں تشہیر کا باعث بھی بنتا ہے۔ ‘