یہ مغربی جرمنی کے شہر میونخ کے اولمپکس ویلیج کا ایک منظر ہے۔ سنہ 1972 کے اولمپکس کھیلوں کے دوران ہاکی کے فائنل میچ کے بعد میڈلز کی تقسیم کی تقریب کے ابتدائی لمحات ہیں۔ پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے والی ٹیموں کے کھلاڑی میدان میں ایستادہ ہیں۔
کھیل کی روایت کے مطابق فاتح ملک مغربی جرمنی کا پرچم اپنے قومی ترانے کی دھن کے سنگ فضا میں بلند ہونا شروع ہوتا ہے۔ ہاکی گراؤنڈ میں موجود 15 ہزار تماشائی، منتظمین اور مہمان اس وقت ششدر رہ گئے جب چاندی کے تمغے کی حقدار ٹیم کے تمام کھلاڑیوں نے اپنی پشت جرمنی کے قومی پرچم کی جانب پھیر دی۔
آج سے ٹوکیو میں اولمپکس کا آغاز ہو رہا ہے اور ہاکی میدانوں پر راج کرنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم ان مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اسی موقع پر 1972 میں منعقدہ میونخ اولمپکس میں پیش آنے والے ایک واقعے کو یاد کرتے ہیں جب 1968 اولمپکس میں ہاکی کی فاتح پاکستانی ٹیم کا غیر متوقع رویہ ان کے خیال میں ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے ایمپائر کے جانبدارانہ فیصلوں اور رویے کے خلاف احتجاج کا ایک انداز تھا۔
مزید پڑھیں
-
53 برس قبل کی پی ڈی ایم اور آج کا اتحاد مختلف کیسے؟Node ID: 535591
-
طیارہ ہائی جیکنگ: جنرل ضیا کی سازش یا الذوالفقار کا انتقام؟Node ID: 545066
-
ملک معراج خالد دودھ فروش سے عوامی وزیرِاعظم بننے تکNode ID: 573751
گرین شرٹس کا ردعمل یہیں تک رہتا تو خیر تھی۔ مگر اس کے پانچ کھلاڑیوں نے ایسی حرکت کی جس سے نہ صرف قومی ٹیم پر تاحیات پابندی کے امکانات پیدا ہوگئے، بلکہ پاکستان کے ارجنٹینا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ٹوٹنے کے خطرے سے دو چار ہونے لگے تھے۔
اولمپکس کی عالمی کمیٹی کے رکن اور مغربی جرمنی کے تاجر برٹ ہولڈ بیٹس پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو تمغے دینے کی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
انہوں نے جب پاکستانی کھلاڑیوں کو میڈل پہنانے چاہے تو سب نے گلے میں ڈالنے کے بجائے چاندی کے تمغے ہاتھ میں پکڑ لیے۔
اس وقت کی ورلڈ اولمپکس کمیٹی کے مطابق پانچ پاکستانی کھلاڑیوں نے سرعام میڈل کو اپنے جوتے میں رکھ کر اس کی نمائش کی۔ احتجاج کے اس انوکھے اور نازیبا انداز نے اولمپکس کی عالمی کمیٹی اور ورلڈ ہاکی فیڈریشن کو ناراض کر دیا۔
میچ کے نتیجے پر اشتعال اور احتجاج صرف قومی ٹیم کے کھلاڑیوں تک ہی محدود نہ رہا۔ ساری قوم اپنے تئیں جانبدارانہ ایمپائرنگ پر غصے اور صدمے سے دوچار تھی۔
اور تو اور اس وقت کے صدر مملکت ذو الفقار علی بھٹو کے ابتدائی رویے اور ردعمل کا احوال ان کے اپنے الفاظ میں 14 ستمبر کے روزنامہ جنگ میں یوں رپورٹ ہوا۔ ’میں غصے سے بھنا اٹھا۔ وزارت خارجہ کے سیکرٹری سے کہا کہ اگر ارجنٹینا کے ایمپائر نے میرے ملک کے لوگوں کو نقصان پہنچانے اور ان کی توہین کرنے کی کوشش کی ہے تو میں کل ہی ارجنٹینا سے سفارتی تعلقات منقطع کر لوں گا۔‘
کھیل کے میدان سے لے کر ایوان اقتدار تک جذبات میں ہیجان برپا کرنے میں ریڈیو پاکستان کی کھیل پر رواں کمنٹری کا بھی ہاتھ تھا۔ میچ کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے مبصرین میں فاروق مظہر، ایس ایم نقی اور شوکت کمال شامل تھے۔ جنہوں نے میچ کی صوتی تصویر کشی اس انداز میں کی جس نے ایمپائر کے جانبدارانہ کردار کے تاثر کو مزید راسخ کر دیا۔
صدر ذوالفقار علی بھٹو کے مذکورہ بیان کے ساتھ ان کا یہ بیان بھی اخبارات میں چھپا کے ریڈیو پاکستان کی ناقص کمنٹری میں مبصروں نے کھیل کا جو آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اس نے مجھے گمراہ کیا۔
پاکستان کے معروف سپورٹس جرنلسٹ قمر احمد اس تنازعے کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی ’فارمور دن اے گیم‘ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ جرمنی کے مائیکل کروز ے کے گول پر پاکستان نے تکنیکی وجوہات پر اعتراض کیا۔ مگر ایمپائر نے اس پر توجہ نہ دی۔ پاکستانی مینیجر غلام رسول چوہدری نے گمان کیا کہ پاکستان کو طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہروایا گیا ہے۔ ٹیم کی انتظامیہ کے اس احساس نے کھلاڑیوں کو بھی جذباتی کر دیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ اسی طرح وقفے سے ایک منٹ قبل مدثر اصغر کی ہٹ سے گیند گول میں چلی گئی۔ ارجنٹینا سے تعلق رکھنے والے ایمپائر سرویٹے نے پاکستان کے حق میں گول نہ دیا۔
سابق اولمپئن شہناز شیخ ان کھلاڑیوں میں شامل تھے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے میڈل کو جوتے کے ساتھ اٹھایا تھا۔ اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے اس واقعے کی تفصیلات بیان کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے منیجر نے کھلاڑیوں سے کہا کہ میڈل ہاتھ میں نہیں لینا۔ آپ جس کی سمجھ میں جو آیا اس نے وہی کیا۔ گرمی کے باعث میں نے جوتے اتار رکھے تھے۔ جب میں نے میڈل ہاتھ میں پکڑا تو میرے جوتے زمین پر گر گئے۔ میڈل پکڑے ہاتھ کے ساتھ میں نے جوتا زمین سے اٹھایا۔ جس سے دیکھنے والوں کو یوں لگا کے میڈل جوتے میں رکھا گیا ہے۔‘
قمر احمد شہناز شیخ کی اس واقعے کی تشریح سے اتفاق نہیں کرتے۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کھلاڑیوں نے جان بوجھ کر میڈلز جوتوں میں رکھے۔ میچ ہارنے پر اس طرح کا رد عمل سپورٹس میں سپِرٹ کے خلاف تھا۔‘
مغربی جرمنی کی فتح اولمپکس کی 44 سالہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب ہاکی کا گولڈ میڈل کسی ایشیائی ملک کے بجائے یورپی ملک نے جیتا ہو۔
جرمنی اس سے قبل 1926 میں سلور میڈل جیت چکا تھا۔ تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کی ہاکی ٹیم مسلسل اولمپکس کی فاتح چلی آ رہی تھی۔ آزادی ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کی ٹیمیں یکے بعد دیگرے گولڈ میڈلز جیتی رہیں۔
میونخ می جرمنی کے مدمقابل ہاکی کے اس معرکے میں پاکستانی ٹیم کے غیرمعمولی اعتماد کی ایک وجہ اپنے روایتی حریف انڈیا کو سیمی فائنل میں ہرانا بھی تھا۔ سنہ 1968 کے اولمپکس میں پاکستانی ٹیم طارق عزیز کی کپتانی میں نو میچوں میں نہ قابل شکست ہونے کی وجہ سے گولڈ میڈل جیت چکی تھی۔ اپنے اعزاز کے دفاع کے لیے اس کا سامنا جرمنی سے ہوا تو ساری قوم آسان جیت کے لیے پر امید تھی۔
مغربی جرمنی نے شروع سے ہی دفاعی کھیل کا انداز اپنائے رکھا۔ وقفے سے قبل پاکستانی کھلاڑی مدثر اصغر کی ہٹ سے گیند گول میں چلی گئی۔
مگر ایمپائر نے انہیں اف سیٹ قرار دیا تو پاکستان کے حصے میں گول نہ آ سکا۔ جرمنی نے جس پینلٹی کارنر پر پاکستان کے خلاف گول کیا اس فیصلے کو پاکستان نے اسی بنیاد پر چیلنج کیا کہ اصلاح الدین کے پاؤں میں گیند ڈی سے باہر لگی تھی۔
شہناز شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایمپائر کا یہ فیصلہ جانبدارانہ اور تعصب پر مبنی تھا۔ پاکستانی گول کیپر سلیم شیروانی کا قد 6 فٹ 2 انچ تھا۔ ان کے کندھوں کے اندر سے گیند گول میں نہیں گئی تھی۔ یہ پینلٹی کارنر کے رولز میں ہے کہ گیند تختے پر لازمی لگنی چاہیے۔ اس میچ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔
قمر احمد اس میچ میں ایمپائرنگ کے معیار اور فیصلوں میں نقائص کے بارے میں شہناز شیخ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایمپائرکی بدمعاشی تھی کہ اس نے پاکستانی کھلاڑی کے گول کو رد کر دیا اور جرمنی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے گول کا حقدار قرار دیا۔ اس زمانے میں ری پلے کا رواج اور سہولت بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے میچ کے نتیجے پر تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
اس دور کی خاتون اول بیگم نصرت بھٹو بھی میچ دیکھنے والوں میں شامل تھی۔ میچ سے قبل ان کا ٹیم کے کھلاڑیوں سے تعارف کروایا گیا۔ ایمپائر کے فیصلوں کے بارے میں جذباتی کمنٹری اور کسی حد تک مبالغہ آمیز تبصروں نے سٹیڈیم میں موجود پاکستانی تماشائیوں کو بھی فوری رد عمل پر اکسایا۔
اس دور میں کراچی کے روزنامہ ’سن‘ سے وابستہ کمنٹیٹر اور تبصرہ نگار فاروق مظہر کے حوالے سے قمر احمد کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی مہارت اور مخالفین کی بدگوئی میں یوں زمین و آسمان کے قلابے ملائے کے ٹیم اور قوم دونوں میں سپورٹس مین سپرٹ کے بجائے جذبات اور بدلہ لینے کی خواہش آپے سے باہر ہوگئی۔
جب جرمنی نے یہ میچ ایک صفر سے جیت لیا تو درجنوں پاکستانی تماشائی نعرے لگاتے ہوئے گراؤنڈ میں داخل ہوگئے۔ ایک وقت میں تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ ایمپائر کے لیے مخصوص انکلیو کو کہیں تہ و بالانہ کر دیں۔ اس ہنگامے کی وجہ سے تقسیم انعامات کی تقریب بھی تاخیر سے شروع ہوئی۔
