سمنگان سے صفت اللہ سمنگانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’طالبان کا صوبے پر مکمل قبضہ ہے۔‘
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کی کہ ’سمنگان کے دارالحکومت ایبک بھی افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا اور یہ مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے۔‘
طالبان کے 72 گھنٹوں میں پانچ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کے بعد افغان فورسز کی جنوبی شہروں کی واپسی کے لیے شدت پسندوں کے ساتھ لڑائی جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ’گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قندھار اور ہلمند میں جھڑپوں کے دوران طالبان کے سینکڑوں جنگجو ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ یہ دونوں شہر طالبان کے گڑھ مانے جاتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی کا کہنا ہے کہ ’طالبان کا بھاری نقصان ہوا ہے اور سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان سکیورٹی فورسز شہروں میں گشت کر رہی ہیں۔‘
افغانستان میں طویل عرصے سے جاری کشیدگی میں رواں سال مئی میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب امریکی قیادت میں فوجی اتحاد نے ملک سے انخلا کے آخری مرحلے کا آغاز کیا جو رواں ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔
طالبان نے گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران جن شہروں پر قبضہ کیا وہ نہ تو آبادی کے لحاظ سے بڑے ہیں اور نہ ان کی زیادہ تزویراتی حیثیت ہے، تاہم اگر انہوں نے کسی بھی جنوبی شہر پر قبضہ کیا تو ان کا زور بڑھ جائے گا۔
طالبان جنگجو ہفتوں سے قندھار اور لشکرگاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ’وہ اب تک صرف شہروں کے مضافات یا کچھ محلوں تک پہنچے ہیں۔‘
افغان فوج کی 215 ویں کور کے کمانڈر جنرل سمی سعدت نے لشکر گاہ سے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم وہ گھر، سڑکیں اور عمارتیں خالی کروا رہے ہیں جن پر طالبان قابض ہیں۔‘
دوسری جانب طالبان نے پیر کو کہا ہے کہ ’ان کی نظریں اب شمال سے سب سے بڑے شہر مزار شریف پر ہیں۔‘
شدت پسندوں کے ترجمان نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ’انہوں نے شبرغان کے مغرب میں اور مشرق میں قندوز اور تالقان پر ہفتے کے آخر میں قبضہ کرنے کے بعد شہر پر چار جہتی حملہ کیا ہے۔‘
تاہم ہرات کے رہائشیوں اور حکام کا کہنا ہے کہ ’طالبان مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں اور لڑائی صرف آس پاس کے ضلعوں تک محدود ہیں۔‘
کابل میں افغان ریڈیو سٹیشن مینجر قتل
قبل ازیں افغانستان میں مقامی حکام کا کہنا تھا کہ ’طالبان جنگجوؤں نے صحافت سے وابستہ شخصیات کو نشانہ بناتے ہوئے کابل میں افغان ریڈیو سٹیشن کے مینجر کو قتل جبکہ ہلمند صوبے سے ایک صحافی کو اغوا کر لیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مسلح شخص نے اتوار کو پکتیا غگ ریڈیو کے سٹیشن مینجر اور افغانستان کے آزاد میڈیا کے حامی گروپ این اے آئی کے آفیسر توفن عمر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
این اے آئی کے سربراہ مجیب خیلوتگر کا کہنا ہے کہ ’عمری کو نامعلوم مسلح شخص نے قتل کیا، وہ ایک لبرل آدمی تھے، ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
حکام نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ’یہ حملہ طالبان جنگجوؤں کی جانب سے کیا گیا ہے۔‘
گذشتہ ماہ این اے آئی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ’رواں سال افغانستان میں شدت پسند گروپوں نے کم از کم 30 صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو قتل، زخمی اور اغوا کیا۔‘
ہلمند صوبے میں حکام کے مطابق ’طالبان جنگجوؤں نے اتوار کو مقامی صحافی نعمت اللہ ہمت کو لشکر گاہ میں ان کے گھر سے اغوا کر لیا۔‘
نعمت اللہ ہمت نجی ٹی وی چینل غرغشت سے منسلک تھے، اس چینل کے سربراہ رضوان میاخیل کا کہنا ہے کہ ’کچھ اندازہ نہیں کہ طالبان ہمت کو کہاں لے کر گئے ہیں، ہم خوف کی کیفیت میں ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز اتوار کو طالبان نے شمالی افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے تین صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
سکیورٹی ذرائع اور مقامی رہائشیوں نے تصدیق کی کہ طالبان نے قندوز، سرِپُل اور تالقان پر گھنٹوں کے اندر قبضہ کر لیا ہے۔
تالقان سے ٹیلی فون پر ایک شہری ذبیح اللہ حمیدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انہوں نے سکیورٹی فورسز اور عہدیداروں کو گاڑیوں کے قافلے میں شہر سے نکلتے دیکھا ہے۔‘
قندوز کے ایک شہری نے بتایا کہ شہر میں ’مکمل طور پر افراتفری‘ کی صورت حال ہے۔
طالبان نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’شدید لڑائی کے بعد مجاہدین نے دارالحکومت قندوز پر قبضہ کر لیا ہے۔‘
’مجاہدین نے سرِپُل، سرکاری عمارتوں اور وہاں کی تمام تنصیبات پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔‘
طالبان نے اتوار کی شام ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انہوں نے تالقان پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔‘