ڈائریکٹر ابو علیحہ سیریل کلرر جاوید اقبال کی زندگی پر فلم بنا رہے ہیں (فوٹو بشکریہ ابو علیحہ)
سیریل کلر جاوید اقبال کا نام اگر کسی نے پہلے نہیں سن رکھا تو اب ضرور اس نام سے واقف ہو گیا ہوگا کیونکہ پاکستان میں پہلی بار ماضی کے اس سیاہ کردار پر ایک فلم ریلیز کی جا رہی ہے جس کے پوسٹرز آپ کی نظر سے بھی ضرور گزرے ہوں گے۔
جو لوگ اس نام سے واقف نہیں انہیں بتاتے چلیں کہ لاہور کے رہائشی جاوید اقبال نے 1998 اور 1999 کے دوران تقریباً 100 بچوں کو زیادتی کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اعتراف جرم کر کے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
ایک سیریل کلر پر فلم بنانے کا خیال کیسے آیا اس بارے میں فلم کے ڈائریکٹر ابو علیحہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں کورین سینیما کا فین ہوں، ان کی زیادہ تر فلمیں سیریل کلرز پر مبنی ہوتی ہیں یا سائیکالوجیکل ہارر۔‘
’اسی طرح ہالی وڈ کو بھی دیکھ لیں۔ دنیا میں کسی سیریل کلر نے چار لوگ مارے ہیں، پانچ بچے مار دیے اس موضوع پر کچھ نہ کچھ فلمیں اور ویب سیریز کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہیں۔ پاکستان میں ایک سیریل کلر نے سو بچوں کا قتل کیا لیکن اس کے بارے میں کوئی لکھنا نہیں چاہتا یا کچھ بنانا نہیں چاہتا یا بنانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔‘
ابو علیحہ نے بتایا کہ ’جاوید اقبال شروع سے ایک ایسا کردار رہا ہے جس نے مجھے بہت متوجہ کیا کیونکہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماری کو بیماری نہیں سمجھا جاتا، سر درد ہو رہا ہے کوئی دوائی کھا لو لیکن اگر آپ کو دورے پڑتے ہیں تو کسی پیر کے پاس لے جاؤ۔ ایسے معاشرے میں ہر دوسرا آدمی ذہنی و نفسیاتی مریض ہے اور ہر پانچواں آدمی مجھے لگتا ہے کہ ایک پوٹیشنل ریپسٹ یا کلر ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جاوید اقبال کی تصویروں اور ویڈیوز کو دیکھیں اصل زندگی میں اگر یہ آدمی آپ کے پاس سے بھی گزر جاتا تو آپ کو خبر بھی نہ ہوتی کہ اندر سے کتنا گھناؤنا ہے تو اس بات نے مجھے فلم بنانے پر مجبور کیا تاکہ لوگوں کو شعور اور آگاہی ملے کہ ان کے اردگرد کوئی ایسا شخص موجود تو نہیں جو ان کے لیے یا بچوں کے لیے کسی قسم کا خطرہ بن سکتا ہے۔‘
ابو علیحہ اسی موضوع پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں اور اب اسے فلما رہے ہیں، جاوید اقبال کی زندگی کی کہانی کو سامنے لانے کے لیے کتنی ریسرچ کرنا پڑی، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’جب اس حوالے سے کتاب لکھنے کا سوچا تو سب سے پہلے تو گوگل اور یوٹیوب پہ سرچ کیا جتنے آرٹیکلز تھے وہ اپنے پاس محفوظ کر لیے لیکن مجھے لگا کہ یہ تو کافی نہیں ہے پھر میں لاہور گیا۔‘
’ان کے محلے میں گیا، پولیس سٹیشن گیا، اس زمانے کے ایک دو پولیس والے مجھے مل گئے اس کے بعد جب انسداد دہشتگردی عدالت کے اندر جاوید اقبال کے کیس کی پوری فائل کی فوٹوکاپی میرے ہاتھ لگی تو اس سے مجھے اندر کی معلومات ملیں۔ پولیس نے جو تحقیقات کیں، ان کے ساتھیوں سے جو تفتیش ہوئی وہ ساری معلومات ملیں۔‘
اس فلم کا نام ’جاوید اقبال، ان ٹولڈ سٹوری آف سیریل کلر‘ ہے تو اس فلم میں ایسے کن رازوں سے پردہ اٹھے گا جو کوئی نہیں جانتا یا ایسی کیا نئی بات سامنے آئے گی جو لوگ نہیں جانتے۔ اس سوال کے جواب میں ابو علیحہ نے بتایا کہ ’مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس کہانی کا وہ اینگل بتاؤں جو ابھی تک لوگوں کو نہیں پتا ہے۔ سب کو پتا ہے اس نے سو بچے مارے ہیں، سب کو پتا ہے اس نے سو بچے کیسے مارے ہیں، کیوں مارے ہیں یہ ایک سوال ہے۔ اس نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کیوں کیا وہ کیا چاہتا تھا ان سوالوں کے جواب ہم اس فلم میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کہانی میں ہمارا اینگل یہ بھی ہے کہ کیا اس نے سو بچے ہی مارے یا زیادہ تھے، کیا اس نے جن بچوں کو اغوا کیا وہ سو ہی تھے۔ وہ اکیلا تھا یا اس میں اور لوگ بھی شامل تھے۔ سب سے اہم سوال یہ کہ اگر فرض کرلیں اس نے گینگ کے ساتھ مل کر دو سو بچے اغوا کیے، سو مار دیے تو باقی سو کہاں ہیں۔‘
ابو علیحہ کا کہنا ہے کہ ’یہ سوال صرف میرے ذہن میں نہیں اٹھے بلکہ اگر آپ لاہور جائیں تو ہر تیسرا آدمی جس سے آپ جاوید اقبال کے بارے میں بات کریں گے وہ اسی طرح کے سوال آپ کے منہ پر مارے گا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان تمام کانسپائریسی تھیوریوں کو سامنے لاؤں اور جج بن کر فیصلہ نہ دوں بلکہ لوگوں کو خود فیصلہ کرنا ہے۔‘
ابو علیحہ کے مطابق جاوید اقبال کی کہانی حقائق کو سامنے رکھ کر فلمائی گئی ہے۔ ’میں نے اپنی کہانی کے کردار بدلے ہیں جیسے کہ جس پولیس آفیسر نے جاوید اقبال سے تفتیش کی وہ ایک مرد آفیسر تھا لیکن میری فلم میں وہ ایک خاتون آفیسر ہیں۔‘
اس فلم میں جاوید اقبال کے کردار کو نبھانے کے لیے اداکار یاسر حسین کا ہی انتخاب کیوں کیا، اس حوالے سے فلم کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ ’اس فلم کے لیے میری پہلی چوائس یاسر حسین ہی تھے، تین سال پہلے جب میں نے انہیں اپنی ’ہالف فرائے‘ فلم کے لیے کاسٹ کیا تھا تو اس وقت بھی میں نے انہیں کہہ دیا تھا کہ جاوید اقبال پر فلم بناؤں گا اور میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ فلم کرنی چاہیے۔‘
’یاسر دِکھنے میں جاوید اقبال کے بہت قریب لگتے تھے، جاوید اقبال کا جو لہجہ تھا وہ ان کے لیے اپنانا مشکل نہیں تھا، تیسری بات یہ کہ یاسر تھیٹر کے بہت منجھے ہوئے اداکار ہیں، انڈسٹری کے لوگ یاسر حسین کو ان کے ڈراموں اور فلموں سے جانتے ہیں انہوں نے یاسر کو تھیٹر کے اندر پرفارم کرتے دیکھا ہی نہیں کہ وہ کتنے بڑے منجھے ہوئے اداکار ہیں۔‘
’یاسر حسین نے اس کردار کے لیے جتنی محنت کی ہے انہیں اس فلم کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد باقاعدہ کسی ماہر نفسیات سے سیشنز لینا پڑیں گے تاکہ وہ اپنے آپ کو اس کریکٹر سے نکال سکیں۔‘
ماضی میں بھی اس موضوع پر فلم بنانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سننے میں آیا کہ سینسر بورڈ کی بندشوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا تو کیا اس فلم کو بنانے میں انہیں بھی ایسے چیلنجز کا سامنا ہے اس سوال پر ابو علیحہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت غلط بات کی جاتی ہے کہ ہم نے کوئی چیز بنانے کی کوشش کی اور سینسر بورڈ آڑے آگیا، سینسر بورڈ کا کام فلم بننے سے روکنا نہیں ہے صرف سینما سے متعلق ہے۔ جب آپ اپنی فلم مکمل ہونے کے بعد سینما پر لگانا چاہتے ہیں تو سینسر بورڈ اس کا جائزہ لیتا ہے کہ اسے لگانے دینا ہے تو کتنے سین یا ڈائیلاگز کاٹنے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نے فلم بنانے کی کوشش کی اور سینسر بورڈ آڑے آگیا تو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘
فلم کب ریلیز ہوگی، اس حوالے سے ابو علیحہ نے بتایا کہ ’فلم نوے فیصد شوٹ ہو چکی ہے، ہماری کوشش ہے کہ اکتوبر میں جب ایس او پیز کے ساتھ سینما کھل رہے ہیں تو ہم اکتیس اکتوبر کو اسے سینما پر ریلیز کر دیں گے۔‘
ابو علیحہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کافی محنت کر رہے ہیں، اس سے پہلے بھی ان کی پانچ فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔
ابو علیحہ سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ انہوں نے بطور فلم میکر انڈسٹری کو کتنا ویلکمنگ پایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ بہت دلچسپ سوال ہے، میرا یہ ماننا ہے اور یہ کہنا ہے کہ میرا، میرے ابا کا پاکستان کی فلم انڈسٹری پر کوئی احسان نہیں ہے کہ یہ انڈسٹری کھڑی ہو کر مجھے ویلکم کرے۔ ہم سٹار کڈز نہیں ہیں ہم وہ لوگ نہیں ہیں جن کے پاس اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل موجود ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور اس خواب کے پیچھے اپنی زندگی لگا دیتے ہیں۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔‘
ابوعلیحہ کہتے ہیں کہ ’یہ میری اچیومنٹ ہے کہ میرے ساتھ جتنے فنکاروں نے کام کیا انہوں نے میرے بجٹ کے مطابق کام کیا، شاید اس لیے کہ ہم نے کانٹینٹ اچھا دیا اچھا سکرپٹ آفر کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے کام مل رہا ہے، اس وقت میری پانچ فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں، اگلی تین فلمیں اور دو ویب سیریز کے پروڈیوسرز بھی تیار ہیں، مجھے لگتا ہے کہ میرا کام سامنےآنا شروع ہوگا تو مجھے (انڈسٹری میں) مقام ملے گا۔‘