چُمَّک کو چُمبک بھی کہتے ہیں، جب کہ اردو میں یہ ’مقناطیس‘ کہلاتا اور عربی کے ’مغناطیس‘ سے پہلو ملاتا ہے۔ (فوٹو: پکس فیول)
چاہتا ہوں ایک چنگاری میں اس چقماق سے
لیکن اس پتھر سے آخر مجھ کو ٹکرائے گا کون
کہتے ہیں پسند اپنی اپنی اور نصیب اپنا اپنا، اب اس شعر ہی کو دیکھ لیں جس کے شاعر کو چقماق صفت محبوب میں پسند ہے اور ہمیں فقط ’چقماق‘، کہ یہ اپنے پہلو میں بجلیاں رکھتا ہے۔ یوں اس سے ٹکرانے والا اسے شعلہ فِشان پاتا ہے۔
چقماق ترکی زبان کا لفظ ہے، جو فارسی زبان میں ’چقماق‘ کے علاوہ ’چخماق‘ اور ’چخماخ‘ بھی پکارا جاتا ہے۔ ’چقماق‘ دراصل پتھر کی ایک خاص قسم ہے جس پر ضرب لگانے سے چنگاریاں پھوٹتی ہیں۔
قدیم زمانے سے بروئے کار لایا جانے یہ پتھر آج جدید دور میں بھی سگار اور سگریٹ سلگانے اور چولھا دہکانے والے بہت سے لائٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔ آگ کی اسی نسبت سے یہ پتھر عربی میں 'حجر النار' کہلاتا ہے۔
فارسی حرف ’چ‘ صوت و صورت میں حرف ’ج‘ سے مشابہ ہونے کی وجہ سے ’جیمِ فارسی‘ و ’جیمِ اعجمی‘ کہلاتا، اور حروف ابجد میں ’جیم‘ تصور کیا جاتا ہے۔
اس قربت کی وجہ سے حرف ’ج‘ اور ’چ‘ اکثر موقعوں پر ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں۔ دوسری طرف حرف ’ق‘ ہے جو حسب موقع حرف ’خ، غ اور گ‘ سے بدلتا ہے۔
صوتی تبدیلی کے اس اصول کے ساتھ چقماق کی تخفیف ’چقمق‘ کو ذہن میں رکھیں اور ’چقمق‘ سے پھوٹنے والی چنگاری اور چمک پر غور کریں۔ آپ ’چقمق‘ کو لفظ ’جگمگ‘ میں جلوہ گر پائیں گے۔
جگمگ اردو نظم و نثر میں عام استعمال ہونے والا لفظ ہے اور اس کے معنی میں ’روشن، روشنی، چمک دمک اور چمکدار‘ شامل ہے۔ دیکھیں ’بسمل صابری‘ کیا کہہ رہے ہیں:
وفا کو جگمگانا چاہتے ہیں
ہم اپنا دل جلانا چاہتے ہیں
یوں تو کوئی لغت یا فرہنگ یہ بیان نہیں کرتی کہ ’جگمگ‘ کی اصل ترکی کا ’چقمق‘ ہے، مگر لفظ ’جگمگ‘ سے پھوٹتے الفاظ ’جگمگانا اور جگمگاہٹ‘ بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ ’روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے۔‘
اب ’جگمگ‘ بمعنی روشنی کو ذہن میں رکھیں اور روشنی بکھیرتے ’جُگنو‘ پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جگنو کا ’جُگ‘ روشنی کا ترجمان ہے۔ یوں ’جُگنو‘ اس پتنگے کا صفاتی نام ہے۔
اس روشنی ہی کے سبب جگنو فارسی میں ’کرمکِ شب تاب‘ یعنی رات کو چمکنے والا پتنگا کہا جاتا ہے۔ جب کہ انگریزی میں اس کی یہ صفت فائرفلائی (firefly)، فائز وارم (fireworm)، گلووارم (glowworm) اور لائٹنگ بگ (lightning bug) جیسے ناموں سے چھلکتی ہے۔ اس سے پہلے کے آگے بڑھیں ’جگنو‘ کی رعایت سے پروین شاکر کا معروف شعر ملاحظہ کریں:
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
سکول کے زمانے میں جب اول اول لفظ ’چقمق‘ نظر سےگزرا تو اپنے طور پر اسے ’چُمَّک‘ کی اصل سمجھ بیٹھے۔ لہٰذا جب کبھی ’چُمَّک‘ سے واسطہ پڑتا تو اسے اس اہتمام سے ’چقمق‘ کہتے کہ معلوم ہوتا گلا ’قاف‘ کی کُلیَّاں کر رہا ہے۔ بہت بعد میں منکشف ہوا کہ ’چقمق‘ اور ’چُمَّک‘ دو الگ الفاظ اور دو مختلف دھاتوں کے نام ہیں۔ ’چقمق‘ اگر آتش بار ہے تو ’چُمَّک‘ آہن ربا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ ’آہن ربا‘ کیا ہوتا ہے؟ عرض ہے کہ فارسی میں ایک لفظ ہے ’ربودن‘، جس کے معنی میں لبھانا، رجھانا، چوری کرنا اور کھینچنا شامل ہے۔ اسی ’ربودن‘ سے لفظ ’ربا‘ نکلا ہے، اسے آپ ناکام عشاق کی پسندیدہ ترکیب ’دل ربا‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔
محبوب کو ’دل ربا‘ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ یا تو وہ دل چُرا لے جاتا ہے یا پھر دل اس کی جانب کھینچا چلا جاتا ہے۔ چوں کہ ’چُمَّک‘ بھی لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس لیے ’آہن ربا‘ کہلاتا ہے۔
چُمَّک کو چُمبک بھی کہتے ہیں، جب کہ اردو میں یہ ’مقناطیس‘ کہلاتا اور عربی کے ’مغناطیس‘ سے پہلو ملاتا ہے۔ اس مقناطیس پر غور کریں تو اسے آپ انگریزی کے میگنٹ (magnet) کا ہم آواز پائیں گے۔ پھر یہی صوتی اہم آہنگی لفظ مقناطیسی اور میگناٹیک (magnetic) میں موجود ہے۔
خیال تھا کہ انگریزی میگنٹ کی اصل مغناطیس یا مقناطیس ہے۔ مگر یہ خیال اُس وقت خام ثابت ہوا جب پتا چلا کہ انگریزی‘magnet’کی اصل فرانسیسی کا magnete ہے، اور اس فرانسیسی لفظ کی جڑ لاطینی میگنیٹم (magnetum) میں پیوست ہے، جب کہ اس میگنیٹم کی اصل یونانی زبان کا میگنیز(Magnes) ہے، جو سرزمین عرب پہنچا تو ’مغناطیس‘ پکارا گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اردو لغت نویس بھی لفظ ’مقناطیس‘ کو یونانی الاصل بتاتے ہیں۔
لفظ ’میگنٹ‘ لہجے کے فرق کے ساتھ انگریزی کے علاوہ جرمن، ولندیزی، ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں میں بھی موجود ہے، اور ان سب کا ماخذ لاطینی زبان ہے جس نے اسے یونانی سے اٹھایا اور یورپ بھر میں پھیلایا ہے۔