Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں پولیس اور انتظامیہ کے اعلٰی افسران کی بار بار تبدیلی کیوں؟

عثمان بزدار کی ہدایت پر منگل کو صوبے کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو ایک بار پھر تبدیل کر دیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر منگل کو صوبے کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو ایک بار پھر تبدیل کر دیا گیا ہے اور پی ٹی آئی کے تین سالہ دور کے ساتویں آئی جی راؤ سردار علی خان کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اس دور حکومت کے پانچویں چیف سیکرٹری کے طور پر کامران علی افضل کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد پنجاب کی بیوروکریسی میں مسلسل اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے اور سینیئر ترین سطح پر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ضلع اور تحصیل کی سطح پر افسران کے تبادلے اس سے بھی زیادہ تیزی سے ہو رہے ہیں۔
حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق چیف سیکریٹری پنجاب جواد رفیق ملک کو بطور سیکریٹری صنعتی پیداور ٹرانسفر کر دیا گیا ہے جبکہ سابق آئی جی پنجاب انعام غنی کو آئی جی ریلوے کے عہدے پر ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ انعام غنی کو نو ستمبر 2020 کو آئی جی تعینات کیا گیا تھا گویا وہ ایک سال بھی عہدے پر نہ رہ سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر نئے آنے والے چیف سیکریٹری یا آئی جی کے بارے میں وزیراعلی یا ان کی کابینہ کی طرف سے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ عرصے بعد اسی افسر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے اسے تبدیل بھی کر دیا جاتا ہے۔

سابق آئی جی پنجاب انعام غنی کو آئی جی ریلوے کے عہدے پر ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ (فوٹو: انعام غنی ٹوئٹر)

پنجاب حکومت کے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے ان تبادلوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انتظامی تبدیلی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا اختیار ہے۔‘
اپنے بیان میں انہوں نے صوبے میں جرائم کے ہائی پروفائل کیسز کو آئی جی اور چیف سیکریٹری کی تبدیلی کی وجہ قرار دیا۔
ترجمان پنجاب حکومت نے مزید کہا کہ پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے میں کرائم کیسز اور ایشوز سامنے آئے ہیں، تبدیلی وزیراعلیٰ کا اختیار ہے۔

مقررہ مدت سے قبل تبدیلیاں عمران خان کے منشور کی نفی

پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اکبر حسین درانی، نسیم کھوکھر، اعظم سلیمان اور جواد رفیق ملک کو چیف سیکریٹری پنجاب بنایا مگر وہ کسی ایک کی کارکرگی سے مطمئن نہیں ہوئی اسی طرح موجودہ دور میں تعینات اور پھر تبدیل ہونے والے آئی جیز میں کلیم امام، راؤ محمد طاہر امجد سلیمی، عارف نواز، شعیب دستگیر اور انعام غنی شامل ہیں۔
بیوروکریسی کے امور پر گذشتہ تین دہائیوں سے رپورٹنگ کرنے والے سینئیر صحافی انصار عباسی نے ان اعلی سطحی تبادلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنے منشور میں جو کہا تھا یہ اس کی مکمل نفی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے تین سالہ دور کے ساتویں آئی جی راؤ سردار علی خان کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گذشتہ تین سالوں میں پنجاب میں کسی آئی جی اور چیف سیکریٹری کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔
’جب آپ اعلی افسران کو اپنی عہدے کی مدت پوری نہیں کرنے دیں گے تو صوبے میں کوئی بہتری نہیں آ سکے گی۔ نچلی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے تبادلے بھی معمول بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں گورننس تباہ ہو چکی ہے۔
انصار عباسی کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کا صوبہ گورننس کے حوالے سے مثال ہوتا تھا اور اب یہاں بدترین کارکردگی دکھائی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری وزیراعظم عمران خان پر ہی عائد ہوگی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ پولیس کے قانون میں آئی جی کی مدت دو سال لکھی ہے مگر بدقسمتی سے اس قانون پر عمل نہیں ہوتا۔ پچھلے تین سال میں سات آئی جی آئے اور موجودہ آئی جی کا ابھی سال ہی ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ آئی جی لگاتے وقت طریق کار پر عمل کرے کیونکہ بار بار تبادلے گورننس کی اچھی مثال نہیں ہے۔
شوکت جاوید کے بقول ’جانے والے آئی جی ایک اچھے آفیسر تھے ان کے تبادلے کی سمجھ نہیں آئی۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے تعینات آئی جی بھی ایک اچھے آفیسر ہیں اور امید ہے وہ اپنے عہدے کی مدت پوری کریں گے۔ سابق آئی جی کے مطابق پولیس کی کمانڈ بدلتی ہے تو فورس بھی ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور نئے آفیسر کو پالیسی بنانے میں وقت لگتا ہے۔

صحافی رئیس انصاری کا کہنا ہے کہ اس بار وزیراعلی پنجاب نے اپنی پسند کے نام اسلام آباد میں وزیراعظم کی منظوری کے لیے بھیجے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر) 

پہلی دفعہ وزیراعلی پنجاب کی مرضی چلی ہے

لاہور میں وزیراعلی پنجاب اور دیگر امور کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی رئیس انصاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سے قبل جتنے آئی جی یا چیف سیکرٹریز لگائے جاتے تھے وہ سب اسلام آباد (وزیراعظم عمران خان کی طرف) سے آتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی بات زیادہ نہیں سنتے تھے۔‘
جب آپ حکومت کے سربراہ ہوں اور آپ سے بالا بالا کوئی افسر تعینات ہو جائے تو وہ آپ کی کہاں سنیں گے۔
 تاہم اس بار وزیراعلی پنجاب نے اپنی پسند کے نام اسلام آباد میں وزیراعظم کی منظوری کے لیے بھیجے ہیں اور یہ اچھے افسران ہیں امید ہے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی اور اس بار وزیراعلی بھی ان سے مطمئن ہوں گے۔ 

شیئر: