Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم دنیا میں نائن الیون کے بعد انتہا پسندی پر بحث میں نمایاں پیش رفت ہوئی: رپورٹ

اسامہ حسن نے کہا کہ طالبان کے لیے 1996 سے 2001 کے درمیان ان کے اقتدار کے آخری دور میں نافذ کی گئی سخت گیر پالیسیوں کو دہرانا ’خودکشی‘ کے مترادف ہوگا۔(فائل فوٹو: شٹر سٹاک)
ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج (ٹی بی آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلم ممالک کی حکومتوں اور سینیئر اسلامی علما نے اسلام کو انتہا پسندوں کے نرغے سے دوبارہ حاصل کرنے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔
بدھ کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کا عنوان ’اسلام میں بحث کی کیفیت: نائن الیون کے بعد سے مسلم دنیا میں مذہبی پیش رفتیں‘ ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ رپورٹ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں دہشت گرد حملوں کی 20 ویں برسی کے موقع پر ٹی بی آئی کی ایک سیریز کا حصہ ہے۔ یہ رپورٹ عالمی سیاسی منظرنامے اور اسلام کے متعلق مباحثوں پر دہشت گردوں کے اثرات کا تجزیہ کرتی ہے۔
ٹی بی آئی کے انتہا پسندی پالیسی یونٹ کے سینیئر تجزیہ کار اور ایک امام اسامہ حسن کی لکھی گئی اس رپورٹ میں انتہا پسندی کے خطرے سے نمٹنے کی کوشش میں 2002 کے مکہ اعلامیے سمیت اسلامی سکالرز کے جاری کردہ 120 سے زائد اعلامیے، فتوے اور احکامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
وہ نائن الیون کے بعد سے مسلم دنیا میں جاری بحث کے خاکے بھی پیش کرتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ 20 ویں صدی کے اسلام پر بنیاد پرستوں کے زیر اثر مباحثے کی جگہ 21 ویں صدی کا بیانیہ لے رہا ہے، جو کہ دنیا اور دیگر مذاہب کے لیے زیادہ ترقی پسند اور زیادہ وسعت کا حامل ہے۔
اسامہ حسن لکھتے ہیں کہ ’اکثر کم رپورٹ ہونے کے باوجود پچھلے 20 برسوں میں انتہا پسند قیادت اور ان کی اسلام کی تباہ کن تشریحات کا مقابلہ کرنے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔‘
’حکومتوں، پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کو مسلم دنیا میں جاری شدید مباحثوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہیں اُن آوازوں اور قوتوں کو فعال بنانا اور سپورٹ کرنا چاہیے جو زیادہ وسیع ، جامع اور عالمگیر ہیں۔ ایسی قوتیں انسانیت کے مشترک اور مساوی مستقبل کی تعمیر کی کوششوں میں قابل اعتماد معاون ہیں۔
اسامہ حسن نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والی سماجی اصلاحات کا خیرمقدم کرتے ہیں اور انہیں ’انتہائی اہم اور بہت خوش آئند‘ قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے متعدد سعودی باشندوں خصوصاً خواتین سے بات کی ہے جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر کی جانے والی اصلاحات سے ’خوش‘ ہیں۔
لیکن جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے باوجود اسامہ حسن سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان بات چیت اور بحث کے لحاظ سے بلکہ غیر مسلموں سے معاملے میں بھی مزید بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں یقیناً مغربی اور غیر مسلم دنیا کی حکومتوں کی طرف پہنچ زیادہ ہونی چاہیے۔ شاید حکومتی سطح پر پالیسی کے لحاظ سے اس بارے ابھی کافی تفہیم نہیں ہوئی ہے۔‘
’میں (اس موضوع پر) متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں گیا ہوں۔ غیر اسلامی دنیا سے رابطہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوشاں کمیونٹی کے توسط سے ہوتا ہے جہاں آپ کے پاس بین المذاہب رہنماؤں اور اداروں کی ایک بڑی تعداد ہوگی لیکن مغربی یورپ اور امریکہ میں مذہب کے زوال کی وجہ سے یہ عمل اکثر حکومتی سطح تک نہیں پہنچ پاتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان میں نئے فاتح طالبان، ایران میں خمینی حکومت اور مسلم دنیا کے القاعدہ اور (داعش سے وابستہ) گروہوں اور ترقی پسند مسلم آوازوں کے درمیان کشمکش آئندہ چند دہائیوں تک جاری رہے گی۔‘
افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بارے میں حسن نے کہا کہ ’افغانستان کی قیادت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط صرف مسلم دنیا کے نہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برادری کے بہترین مفاد میں ہیں تاکہ اسلام کے بارے میں ان کے نقطہ نظر وسیع کیا جا سکے۔
ان کا خیال ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) اس میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے میں اگر فوجی حل کارگر نہیں تو سفارتی اور مذاکرات پر مبنی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں۔‘
’ہر ایک کے مفاد میں ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ زیادہ روابط رکھے اور انہیں اسلام کے بارے میں زیادہ ترقی پسندانہ اور ہمہ گیر نظر رکھنے کا احساس دلائے۔‘
اسامہ حسن نے کہا کہ طالبان کے لیے 1996 سے 2001 کے درمیان ان کے اقتدار کے آخری دور میں نافذ کی گئی سخت گیر پالیسیوں کو دہرانا ’خودکشی‘ کے مترادف ہوگا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام کی بنیاد پرست اور انتہا پسندانہ تشریح کیسے کام کرتی ہے اور وہ لوگ کلاسیکی اسلامی تصورات امت، خلافت، شریعت اور جہاد کو استعمال کرتے ہوئے کیسے اپنے عزائم کو جواز فراہم کرتے ہیں۔
اسامہ حسن مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں کہ جب تک اسلامی اور غیر اسلامی دنیا کے درمیان صحت مندانہ اور تعمیری مباحثہ جاری ہے، مسلمان انسانیت کو درپیش چیلنجوں کے پائیدار حل تلاش کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں قدرت سے پر امید ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ کو بھی حقیقت پسند ہونا پڑے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ جدوجہد جاری رہے گی، کچھ حلقوں کی مخالفت کے بغیر پیش رفت نہیں ہو سکتی۔‘
’لیکن گلوبلائزیشن کے تمام اشاریے یہی بتاتے ہیں کہ دنیا کھل رہی ہے اور سروے ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان نوجوان اور عرب نوجوان چاہتے ہیں کہ یہ کھل جائے۔ ایسی دنیا کی طرف بڑھنے والی قوتیں زیادہ مستحکم ہیں۔‘
’یہ آسان نہیں ہوگا لیکن تاریخ ہماری طرف ہے اور اس راستے میں قربانیاں ہوں گی لیکن میں بہت زیادہ پرامید ہوں۔‘

شیئر: