’امریکہ بہت دور ہے‘ افغان نائن الیون کو کیسے یاد کر رہے ہیں؟
’امریکہ بہت دور ہے‘ افغان نائن الیون کو کیسے یاد کر رہے ہیں؟
ہفتہ 11 ستمبر 2021 6:03
جب ہائی جیک کیے گئے طیارے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے تو یہ واقعہ آنے والے دنوں میں افغان شہریوں کو ایک سانحے سے دوچار کرنے کا باعث بن گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق القاعدہ کے شدت پسندوں نے دو دن قبل احمد شاہ مسعود کو قتل کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود افغانستان میں مزاحمت کی علامت تھے جنہوں نے سوویت فوج اور طالبان کو اپنے آبائی علاقے پنجشیر سے پیچھے دھکیلا تھا۔
افغان شہری جب احمد شاہ مسعود کی موت کی خبر کے صدمے سے دوچار تھے تو امریکہ میں ایسے واقعات ہو رہے تھے جو ڈرامائی طور پر ان کے ملک کے مستقبل کو بدلنے والے تھے۔
ایک سابق حکومتی ملازم عبدالرحمان نے بتایا کہ ’اس شام میں نے خبریں سنی کہ امریکہ میں ایک حملے سے متعلق بات ہو رہی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے پروا نہیں کی کیونکہ ریڈیو پر ہمیشہ حملوں اور جنگ کی باتیں ہوتی تھیں۔‘
آنے والے دنوں میں جب افغانوں کو معلوم ہوا کہ القاعدہ جو ان کے ملک میں چھپ رہی ہے، امریکہ میں حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھی اور ان کے طالبان حکمرانوں پر اسے پناہ دینے کا الزام تھا۔
زیادہ تر افغان شہریوں نے بھی محسوس کیا کہ ان کی دنیا بھی بدلنے والی ہے۔
عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال نہیں تھا کہ امریکہ انتقام کے طور پر افغانستان پر حملہ کرے گا، میں نے سوچا تھا کہ امریکہ بہت دور ہے۔‘
قندھار میں ایک لائبریرین عبدالصمد کو یاد ہے کہ لوگ اخبار کے ایک سٹینڈ پر جمع ہوگئے تھے اور اخبار کے صفحات جڑواں ٹاوروں پر حملوں کی تصاویر سے بھرے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعے کے دو دنوں بعد کی صورت حال تھی اور ایک ’ناقابل قبول قبضے‘ کا آغاز تھا۔ ’ان کو افغانستان آنے کا ایک بہانہ مل گیا تھا۔ اس سرزمین پر قبضے کا ایک بہانہ تھا۔‘
جب طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کیا تو امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا اور سخت گیر حکومت کو گرا دیا۔
قندھار کے تالہ بنانے والے ایک شخص قیام الدین کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور ایران میں موجود افغان پناہ گزین ملک واپسی کے لیے پرامید تھے لیکن امریکیوں نے یہاں آکر گڑ بڑ کی۔‘
نوراللہ جو ایک استاد ہیں، ان کو امریکہ کے جڑواں ٹاورز پر حملے کی خبر یاد ہے جو انہوں نے اپنے ایک رشتہ دار کے گھر کے تہ خانے میں ایک ٹی وی پر دیکھی۔
طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں ٹی وی کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی تھی۔
’وہ حملہ خوفناک لگ رہا تھا اور بار بار جڑواں ٹاورز کو دکھایا جا رہا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب طالبان چلے گئے تو لوگ خوش تھے، وہ کم سے کم سکون کا سانس لے سکتے تھے۔‘
تاہم جیسے ہی وقت گزرتا گیا ان کو یقین ہونے لگا کہ امریکہ غلط جگہ آگیا ہے۔ یہ جگہ ان کے لیے ایک جال تھی۔ اور بیس سال بعد۔۔۔ میرا اندازہ صحیح تھا۔‘
’طالبان واپس آگئے ہیں۔ وہی لوگ، وہی چہرے اور وہی رویہ واپس آگیا ہے۔‘