امریکہ کو 9/11 کے بعد عربوں کے خلاف منفی ردعمل کو تسلیم کرنا چاہیے: قانونی ماہرین
امریکہ کو 9/11 کے بعد عربوں کے خلاف منفی ردعمل کو تسلیم کرنا چاہیے: قانونی ماہرین
جمعہ 10 ستمبر 2021 18:38
عابد ایوب نے کہا کہ پچھلے کئی برسوں میں امریکی میڈیا نے چند ہلاکتوں کو رپورٹ کیا (فوٹو عرب نیوز)
جس طرح امریکیوں کو نائن الیون کے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والے تین ہزار لوگ یاد ہیں اسی طرح انہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کے چند ہفتوں کے بعد ردعمل کے طور پر امریکہ میں مقیم عرب باشندوں اور دیگر افراد پر بھی حملے ہوئے۔
عرب نیوز کے مطابق امریکن عرب اینٹی ڈسکریمینیشن کمیٹی کے لیگل ڈائریکٹر عابد ایوب نے کہا کہ یہ عرب باشندوں اور مسلمانوں پر منحصر ہے کہ درجنوں سنگین حملوں اور ہلاکتوں کو اجاگر کریں۔
ابھی تک نائن الیون کے حملوں کی بیسویں برسی منانے والی تنظیمیں عربوں اور مسلمانوں کی طرف سے چکائی گئی قیمت کا احساس اور تسلیم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
عابد ایوب نے کہا کہ ’اس کے بعد ردعمل بہت زیادہ تھا۔ جب بھی تشدد کی وجہ سے کسی کی جان جاتی ہے، چاہے وہ عقل سے عاری دہشت گرد حملے ہوں، بہت سنجیدہ بات ہے۔‘
’اور کمیونٹی کے خلاف ردعمل کو بھی سنجیدہ لینا چاہیے۔ ردعمل کے طور پر کئی لوگ قتل ہوئے۔‘
پچھلے کئی برسوں میں امریکی میڈیا نے چند ہلاکتوں کو رپورٹ کیا۔ ان میں سے چار ہلاکتیں قابل ذکر ہیں۔
بلبیر سنگھ سوڈی کو 15 ستمبر 2001 کو ایریزونا میں قتل کیا گیا۔ پگڑی پہننے والے سکھ کو ان کے پیٹرول سٹیشن کے باہر ایک ایسے مشکوک شخص نے مارا جس نے کئی گھنٹے بار میں گزارے اور ’سر پر تولیہ باندھنے والوں کو نائن الیون حملوں کا ذمہ دار قرار دے کر قتل کیا۔‘
اسی روز ایک 46 سالہ پاکستانی وقار حسین ٹیکساس میں اپنے سٹور پر کام کر رہے تھے کہ انہیں بھی گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اس کے بعد مشکوک شخص نے ایک سابق بنگلہ دیشی پائلٹ کو قتل کیا اور کچھ دن کے بعد ایک ہندو رئیس بھویان پر حملہ کیا۔
دیگر کیسز میں حکومتی ادارے اور پولیس اس بات کو ماننے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور عرب باشندوں کا قتل نائن الیون کے بعد ’نفرت انگیز‘ حملے تھے۔
عابد ایوب کے مطابق ’حملے کا شکار بننے والوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا۔ نفرت پر مبنی حملے جاری ہیں۔‘
’نائن الیون کے حملوں کے بعد نفرت پر مبنی پرتشدد جرائم جاری ہیں۔ اگرچہ اس بات کو 20 برس گزر چکے ہیں، لیکن ہم بہت سی جگہوں پر کمیونٹی کے خلاف اس کا ردعمل دیکھ رہے ہیں۔ ہم کام کی جگہ پر نفرت پر مبنی جرائم اور تعصب کو دیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے سے کہا کہ ’ان کے پاس تیزی سے بڑھتے نفرت پر مبنی جرائم اور تشدد کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت نہیں۔‘
’ہم نے یہ معاملہ 20 برس تک اٹھایا اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خامی ہے۔ انہیں کمیونٹی کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ انہیں نفرت انگیزی پر مبنی جرائم کا علم نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔‘
عابد ایوب کا کہنا تھا کہ ’نسل پرستی آج بھی امریکہ میں رہنے والے عربوں اور مسلمانوں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ہم بھی امریکی ہیں۔‘
’ہمیں اپنے کام کے ذریعے اس سے جان چھڑانی ہے اور اپنی کہانی میڈیا کے ذریعے بیان کرنی ہے۔ ہمیں ہر حکومتی سطح پر اس کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 20 برسوں میں عرب اور مسلمان کمیونٹی میں اضافہ ہوا ہے۔ ’ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔ ہم نے خود کو منظم کر لیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ردعمل کہاں سے آ رہا ہے۔‘