دنیا میں ایٹمی پھیلاؤ کی نگرانی کرنے والے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے ایٹمی توانائی کے کامیاب پرامن استعمال پر پاکستان کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی سائنسدانوں نے کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایٹمی توانائی کے ذریعے جس برق رفتاری سے کام کیا ہے وہ متاثر کن ہے۔
آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گراسی نے ان خیالات کا اظہار ان کے ادارے کی جانب سے پاکستان کے پانچ سائنسدانوں کی طرف سے ایٹمی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے کپاس کا بہتر مدافعتی بیج تیار کرنے پر خصوصی ایوارڈز دینے کے بعد کیا۔
مزید پڑھیں
-
تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہNode ID: 368896
-
سمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد اب سمارٹ جنگل: عمران خانNode ID: 594356
رواں ہفتے آئی اے ای اے نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایک خصوصی تقریب کے دوران پاکستان کے نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ بیالوجی (نِیاب) کو تین اعلٰی ایوارڈز سے نوازا تھا جن میں ایٹمی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے کپاس کے بہتر اور طاقتور بیج کی تیاری پر نِیاب کو بطور ادارہ بہترین کارکردگی کا ایوارڈ، کپاس کے بیج پر کام کرنے والے پانچ سائنسدانوں ڈاکٹر منظور حسین، ڈاکٹر کاشف ریاض، ڈاکٹر سجاد حیدر، ڈاکٹر حافظ ممتاز حسن اور ڈاکٹر اللہ دتہ کو کامیاب سائنسدانوں کا گروپ ایوارڈ اور ڈاکٹر کاشف ریاض کو کم عمر سائنسدان کا ایوارڈ شامل ہیں.
کپاس کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال کے بارے میں نِیاب کے سائنسدانوں کے آئی اے ای اے ایوارڈ یافتہ گروپ کے ایک رکن ڈاکٹر حافظ ممتاز حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں 19 مختلف اقسام کے بیج تیار کیے ہیں جن کے استعمال سے اس سال اور آنے والے سالوں میں کپاس کی زیادہ پیداوار متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’رواں سال کپاس کی کاشت کے لیے حکومت کی طرف سے مہیا کیے گیے بیجوں میں سے 50 فیصد نِیاب نے تیار کیے تھے جن پر ایٹمی شعاعیں استعمال کرکے ان کو زیادہ مفید، طاقتور اور بہتر بنایا گیا ہے۔‘
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال پاکستان میں کپاس کی 15 لاکھ گانٹھوں کی زیادہ پیداوار متوقع ہے۔
کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں گذشتہ سال کپاس کی 65 لاکھ گانٹھیں حاصل ہوئی تھیں جب کہ اس سال 80 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار متوقع ہے۔ تاہم یہ پیداوار اب بھی پاکستان کی کل ضرورت 150 لاکھ گانٹھوں سے 70 لاکھ کم ہے۔
چوہدری وحید اشرف جو کپاس کے کاشتکار ہونے کے علاوہ دو کاٹن فیکٹریز بھی چلاتے ہیں اور کپاس کی پیداوار کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ سال کی نسبت رواں سال کپاس کی 15 فیصد کم کاشت ہوئی ہے تاہم اس کے باجود فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر گزشتہ سال فی ایکڑ پیداوار تقریبا بارہ من فی ایکڑ تھی تو اس سال یہ بڑھ کر 18 سے 22 من فی ایکڑ ہو چکی ہے۔
تاہم چوہدری وحید اشرف کے مطابق پیداوار میں اضافے کی بڑی وجہ غیر ضروری بارشوں کا نہ ہونا ہے جو کہ کپاس کی فصل کے لیے مفید رہتا ہے۔
ایٹمی توانائی کپاس کے بیج کو کیسے بہتر بناتی ہے؟
ڈاکٹر ممتاز حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے وہ کپاس کے بیج کی قوت بہتر بناتے ہیں اور اس کے لیے وہ اس پر ایٹمی شعاعیں استعمال کرتے ہیں جو اس کے سائز کو بہتر بناتی ہیں، اس کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں اور اس کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔‘
ان کے مطابق نِیاب اس وقت کپاس کے بیج کی تین نئی اقسام پر بھی کام کر رہا ہے جن کی تیاری کے بعد ایک پودے پر زیادہ شاخیں اور پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔
چوہدری وحید اشرف کا خیال ہے کہ پاکستان میں کپاس کی بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بہت محدود ہے اور اس کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے مزید تحقیق ہونی چاہیے۔