Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان پر پابندیوں کا قانون نہیں صرف مسودہ پیش ہوا: امریکی دفتر خارجہ

امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف پابندیوں کا قانون ابھی صرف مسودہ ہے اور کئی مسودے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی قانون کے طور پر حتمی شکل اختیار نہیں کرتے۔ ’امریکہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔‘
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں امریکی دفتر خارجہ کے اردو ترجمان زیڈ ترار کا کہنا تھا کہ ’ہر پارلیمنٹ کی طرح کانگریس میں بھی قانون کے مسودات آتے ہیں تاہم کئی ایسے مسودے ہیں جو کبھی قانون کے طور پر حتمی شکل اختیار نہیں کر تے۔‘
اس سوال پر کہ کیا بائیڈن انتظامیہ ان پابندیوں کی حمایت کرتی ہے انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے ’وائٹ ہاوس سے پوچھنا ہوگا کیونکہ دفتر خارجہ سے میں آپ کو اتنا نہیں بتا سکتا۔‘
یاد رہے کہ چند دن قبل امریکی کانگریس میں ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جم رشک نے 22 ساتھی سینیٹرز کے ہمراہ ایک بل پیش کیا ہے جس میں افغان طالبان اور ان کی مدد کرنے والی حکومتوں، بالخصوص پاکستان پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
امریکی سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور رپبلکن سینیٹرز کی تعداد برابر ہے (دونوں کے 50، 50 ممبران ہیں) اور کسی بل کو پیش کرنے اور اس کو منظور کرانے کے لیے اکثریت نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر کملا ہیرس کا حتمی ووٹ استعمال کیا جائے گا۔

صدر بائیڈن اور عمران خان کے درمیان فون کال کیوں نہیں ہوئی؟

ماضی میں امریکہ کے ساتھ بھرپور تعاون کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے وزیراعظم عمران خان سے  رابطہ نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر زیڈ ترار نے کہا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ شاید اصل سوال یہ نہیں ہے کہ فون کال ہوئی یا نہیں بلکہ اصل سوال ہمارے سامنے یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیسے ہیں؟ میں یہ کہوں گا کہ ہمارے تعلقات دو طرفہ احترام پر مبنی ہیں۔‘
کیا یہ درست ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں افغان جنگ کے بعد اب روایتی گرم جوشی نہیں رہی، اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بالکل ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ امریکہ نے افغانستان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے یہ بالکل غلط بات ہے۔‘

زیڈ ترار نے کہا کہ ’شاید یہ اصل سوال نہیں کہ فون کال ہوئی یا نہیں ہمارے تعلقات دو طرفہ احترام پر مبنی ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

زیڈ ترار کے بقول ’ہم لگاتار کام کر رہے ہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تاکہ ہم انسانی بنیادوں پر امداد کو جلد سے جلد افغانستان تک پہنچا سکیں اور جتنے بھی پڑوسی ممالک ہیں ان کے ساتھ ہم مل کر کام  کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں ہمارے مشترکہ مفادات ہیں پاکستان کے ساتھ وہاں ہم بالکل ایک ساتھ مل کر کام کریں گے اور کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ( افغانستان میں ) پاکستان کا کرادر ہونا چاہیے اور مستقبل میں ہوگا بھی اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ایک مثبت کردار ہو گا۔‘

’ایف اے ٹی ایف میں ہمارے نمائندے زمینی حقائق دیکھتے ہیں‘

اس سوال پر کہ کیا امریکہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرے گا تو امریکی دفتر خارجہ کے اردو ترجمان زیڈ ترار نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف میں موجود امریکی ماہرین سیاست کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصلی زمینی حقائق کے مطابق مشورہ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ ہمارے ماہرین کام کرتے ہیں۔
’صرف ہمارے وزارت خزانہ کے لوگ اور انسداد منی لانڈرنگ کے لوگ وہاں کام کر رہے ہیں اور وہ ان معاملات کو دیکھتے ہوئے زمینی حقائق کو دیکھ کر اس کے حساب سے ہی مشورے دیتے ہیں اور اس میں صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کے متعلق ہو سکتے ہیں۔‘

شیئر: