Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں حملوں کے بعد ترکی کا فوجی منصوبہ کیا؟

ایمری ایرسن کے مطابق ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملے خطے میں سٹیٹس کو تبدیل کر سکیں گے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
شمالی شام میں کردوں کی جانب سے کئے گئے میزائل حملے میں دو پولیس آفیسرز کی ہلاکت کے بعد تمام نظریں ترکی پر لگی ہیں کہ کیا وہ زمینی کارروائی کرے گا۔
عرب نیوز کے مطابق پیر کو کرد ملیشیا کے زیر کنٹرول ترکی کے جنوب مشرقی صوبے غازیانٹیپ سے پانچ مارٹر گولے پھینکے جانے کے بعد ترکی نے بھی جوابی کارروائی کی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس میں کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کی طرف اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی بہت جلد شام کے حوالے سے ضروری اقدامات کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ترکی شمالی شام سے پیدا ہونے والے خطرے کو ختم کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے لیے زمینی کارروائی کرنی پڑے یا کسی اور ذریعے سے۔‘
انقرہ سمجھتا ہے کہ سیرین کردش پیپلز یونٹ اور سیرین ڈیموکریٹک فورسز کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ ہیں جو خود مختاری چاہتی ہے اور 1984 سے ترکی پر حملے کر رہی ہے۔
شمال مشرقی شام کا زیادہ تر علاقہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ گذشتہ ماہ ادلیب کے ’ڈی ایسکیلیشن‘ زون میں ترکی کے دو فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے۔
اس علاقے میں روس اور ترکی کے فوجی گشت کرتے ہیں۔ ستمبر میں روس اور ترکی کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ترکی نے شامی حکومت کے حملوں اور روس کے فضائی حملوں میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے ادلیب میں مزید فوجی اور ٹینکوں کو تعینات کیا۔
ستمبر میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کے بعد ترک صدر نے کہا کہ ’شدت پسند عناصر کے خاتمے‘ کے لیے ترکی روس کے ساتھ کیے جانے والے 2020 کے سیز فائر معاہدے پر قائم ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے پارٹنرز سے بھی ایسا کرنے کی توقع کرتے ہیں۔
استنبول میں مرمارا یونیورسٹی کے پروفیسر اور روس، ترکی تعلقات کے ماہر ایمری ایرسن نے کہا کہ 'ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ہفتے سوچی میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں رہنما شام کے معاملے پر ایک حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔'

ترکی نے 2016 سے کرد ملیشیا اور داعش کے خلاف شام میں تین آپریشن کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حملے خطے میں سٹیٹس کو تبدیل کر سکیں گے کیونکہ ترکی نے گذشتہ چند مہینوں میں ادلیب میں اپنی فوجی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شام میں فوجی توازن قائم رکھنے کے لیے روس ترکی کے ساتھ براہ راست لڑائی نہیں کرے گا۔‘
ایمری ایرسن کے مطابق ’ایسے وقت میں جب ترکی اور امریکہ کے تعلقات مسائل کا شکار ہیں، روس دو نیٹو اتحادیوں کے درمیان تناؤ کا فائدہ اٹھانا چاہے گا اور اس کی خواہش ہوگی کہ فی الوقت شام کا معاملہ روس اور ترکی کے تعلقات میں بڑا بحران پیدا نہ کرے۔‘
ترکی نے 2016 سے کرد ملیشیا اور داعش کے خلاف شام میں تین آپریشن کیے ہیں۔
ایک اور ماہر ناوار سبان کا خیال ہے کہ شام میں ترکی کے زیر کنٹرول علاقے میں ہونے والے حملے روس کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے۔
تاہم مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر لیونٹ کیمال کو تل ریفات میں فوری طور پر ترکی کے زمینی آپریشن کی امید نہیں ہے۔

شیئر: