ٹیکنالوجی کے سفر کے باوجود روایتی کتاب کی اہمیت برقرار ہے
کہا تھا کاغذ زیادہ دیر نہیں چلے گا مگر پرانی عادتیں مشکل سے چھوٹتی ہیں۔(فوٹو عرب نیوز)
عرب زندگی کے تمام شعبوں میں ٹیکنالوجی کا سفر تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے لیکن جب کتابیں پڑھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی بات آتی ہے تو پرانی عادتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں۔
عرب نیوزمیں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق حالیہ برسوں میں پرنٹ میڈیا کے متبادل ای بکس کی آمد کے باوجود روایتی کتابیں اب بھی اپنی اہمیت پر قائم ہیں۔
یہ اہمیت اوراحساس کتاب پڑھنے کا شوق رکھنے والوں کو نیا صفحہ پلٹنے کے احساس سے لطف اندوز ہونا اچھا لگتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے بہت سے پبلشنگ ہاؤسز نے پرنٹ شدہ الفاظ کی طاقت کو تسلیم کیا ہے جب کہ کتابوں نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے۔
خاص طورپر کتاب میلوں میں خریدار اب بھی پرنٹ شدہ شاہکار کتابوں کی خوبصورتی اور احساس کو ترجیح دیتے ہیں۔
دارالساقی پبلشنگ ادارے میں کمیشننگ ایڈیٹر رانیہ المعلم نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ اب بھی ای بکس کی مانگ نسبتاً کم ہے جس کی بنیادی وجہ ڈیجیٹل ڈیوائسزکی محدود دستیابی ہے۔
انہوں نے کہا آن لائن ای بکس خریدنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں جب کہ قارئین اور شائع شدہ کتابوں کے مابین ایک جذباتی رشتہ بھی ہے۔
یہاں تک کہ جو قارئین ای بکس خرید سکتے ہیں وہ اب بھی شائع شدہ کتاب کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ قابل فہم بھی ہے۔
ای بک کتاب کی محفوظ الیکٹرانک کاپی ہے جس کی چوری یا غیر قانونی اشاعت ناممکن ہے۔
پی ڈی ایف، ورڈ یا دیگر شکلوں میں آن لائن پائی جانے والی جعلی الیکٹرانک کاپیوں کے مقابلے میں ای بکس کی کاپی نہ صرف پبلشر بلکہ مصنف کے بھی بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔
رانیہ المعلم نے مزید بتایا کہ دارالساقی پبلشنگ ہاوس کی اشاعتیں کئی برسوں سے خوبصورتی اور اعلی معیار کا مجموعہ ہیں۔
یہ بنیادی طور پر قارئین کی دلچسپی اور ان کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہیں کیونکہ ہم موضوع، انداز اور زبان وبیاں پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
رانیہ المعلم نے مزید بتایا کہ ہم اپنی کتاب پریزنٹیشن ، پیج لے آوٹ ، فونٹ، لیٹر سائز، پیپر ٹائپ، کور ڈیزائن اور سائز کے لحاظ سے تشکیل دیتے ہیں۔
پرنٹ شدہ کتابوں کے علاوہ ہم نے ای بکس کی ڈیمانڈ کو پورا کرتے ہوئے الساقی ڈیجیٹل لائبریری کا بھی آغاز کیا ہے۔
لندن میں موجود الوراک پبلشنگ کے منیجر ماجد شیبر نے کہا کہ خلیجی خطے میں ای بکس اب بھی ابتدائی مرحلے پر ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ پبلشرز کو چوری اور پی ڈی ایف فارمیٹ میں کتابیں مفت میں اپ لوڈ کرنے کے سلسلے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اوراس عمل کو روکنے کے لیے گوگل میں شکایات بھی درج کرائی ہیں۔
نئی نسل کی زندگیوں میں ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا غلبہ ہے اس لیے مطبوعات کو بھی رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
موجوددہ نسل جو سوشل میڈیا کے ذریعے سیکھتی ہے اب کتابوں کو معلومات کے لیے استعمال نہیں کرتی جبکہ گوگل ان کا سب سے قابل اعتماد ذریعہ ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی کتابوں میں دلچسپی پیدا کریں، انہیں کتابوں کی قدر سمجھنے، ان کے مواد کو سمجھنے اور قیمتی اور سستی کتابوں کےمابین فرق سمجھانے پر زوردیں۔
یہاں تک کہ اگر کاغذ پر پڑھے جانے والے الفاظ، ڈیجیٹل ڈیوائس میں بھی تبدیل ہو جائیں تو بھی بطور پڑھے لکھےانسان ہمیں اشاعتی کتابوں اور ان کی اہمیت کی وکالت جاری رکھنی چاہیے۔
سعودی شاعر اور ناول نگار عادل حوشحان کا کہنا ہے کہ عرب خطے سمیت دنیا بھر میں کچھ پرنٹر پبلشنگز کے خاتمے کے بعد بھی ڈیجیٹل پراجیکٹس بشمول ای بکس اور آڈیوبکس اب بھی دو وجوہات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔
پہلی وجہ اشتہارات سے متعلق ہے کیونکہ اشتہارات ان اداروں پر انحصار کرتے ہیں جو تحریر شدہ کتابوں اور ان کی بھرپور تاریخ کا مقابلہ نہیں کر سکتے جب کہ دوسری وجہ وہ عرب کتاب میلے ہیں جو سوشل میڈیا کی مدد سے مقبولیت میں بڑھ رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ برسوں پہلے ہم نے کہا تھا کاغذ زیادہ دیر نہیں چلے گا لیکن پرانی عادتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں۔