اثرا کی جانب سے ثقافتی اور تخلیقی منظر نامے پر رپورٹ جاری
اثرا کی جانب سے ثقافتی اور تخلیقی منظر نامے پر رپورٹ جاری
پیر 1 نومبر 2021 13:31
تخلیقی اور ثقافتی شعبے میں اہم مسائل پر وسیع طور پر جائزہ لیا گیا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
کنگ عبدالعزیز سنٹر فار ورلڈ کلچر(اثرا) نے سعودی عرب اور اس کے گردونواح کے ثقافتی اور تخلیقی منظر نامے پر مشتمل دو سالہ جامع رپورٹ جاری کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مملکت کا معروف ثقافتی ادارہ 'اثرا' جو ملکی ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
اس ادارے نے ماہر معاشیات اور مقامی شراکت داروں سے مل کر سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں فنکارانہ اور تخلیقی صنعت کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے تین رپورٹیں جاری کی ہیں۔
اثرا کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ سنٹر فار ورلڈ کلچر کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ تحقیق نے ان کے تخلیقی اور ثقافتی تجربات پر عوام کی قیمتی رائے حاصل کی ہے کیونکہ یہ شعبہ کورونا کے پیش نظر بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔
تحقیقی رپورٹ میں پانچ ہزار افراد کے جواب شامل کئے گئے ہیں جنہوں نے سروے میں حصہ لیا۔ ان افراد کا تعلق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے دس مختلف شہروں سے ہےجن میں دمام، ریاض اور جدہ کے علاوہ بیروت، قاہرہ، دبئی، کویت سٹی، منامہ، مسقط اور شارجہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے تقریباً 20 سے زیادہ ماہرین کے انٹرویوز بھی شامل ہیں، جن میں پالیسی ساز، تعلیم کے شعبے سے متعلق ماہرین، دیگر فنکار اور اہم عہدیدار بھی شامل ہیں۔
تحقیق میں سعودی عرب کے ثقافتی اور تخلیقی شعبے میں کچھ انتہائی اہم مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے رپورٹس کی ایک وسیع رینج کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
کنگ عبدالعزیز سنٹر فار ورلڈ کلچر (اثرا) کی ایک عہدیدار فاطمہ الرشید نے بتایا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ یہ تحقیق پالیسی سازوں کے ساتھ ساتھ عوام کےتاثرات اور متاثر کن مکالموں کے لیے بہترین وسیلہ ثابت ہو گی۔
فاطمہ الرشید نے عام لوگوں کو ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کرنے پرتوجہ مرکوز کرتے ہوئے کچھ اہم اقدامات کے نفاذ میں تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافت کو عوامی تعلیمی پروگراموں کا حصہ بنانے کے لیے ثقافتی شرکت کو فعال کرنے کی اہمیت پر زوردیا۔
اثرا کی عہدیدار نے مزید کہا کہ اس تحقیق میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے پورے خطے سے ثقافتی اہمیت اور صارفین کی ترجیحات سے متعلق رائے کو اکٹھا کیا گیاہے جس میں فلم اور ٹیلی وژن کے تھیم پر مبنی تاریخ اور ثقافت سرفہرست رہی ہے۔
فاطمہ الرشید کا مزید کہنا ہے کہ یہ ثقافتی وسائل میں رکاوٹ بننے والے کئی چیلنجز کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جیسے کچھ ممالک میں محدود عوامی اخراجات اور امداد، کچھ دوسرے ممالک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام، تعلیمی نظام میں ثقافت کی محدود موجودگی، معلومات اور آگاہی کی کمی اور بچوں کے لیے مخصوص مواد کی خاص ضرورت کے ساتھ خاندانوں کی کم وسائل پر مبنی سرگرمیاں اور سہولیات شامل ہیں۔
سعودی عرب کی مزید خبروں کے لیے واٹس ایپ گروپ جوائن کریں