انڈین ماہی گیر کی مبینہ ہلاکت، پاکستانی حکام کا اظہارِ لاعلمی
انڈین ماہی گیر کی مبینہ ہلاکت، پاکستانی حکام کا اظہارِ لاعلمی
پیر 8 نومبر 2021 12:51
پی ایم ایس اے نے بتایا گیا ہے کہ ’جل پری‘ نامی کشتی یا اس کے عملے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی (پی ایم ایس اے) نے انڈین میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کسی ایسے واقعے سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کیا جس میں کوئی بھارتی ماہی گیر ہلاک یا زخمی ہوا ہو۔
انڈین میڈیا میں چلنے والی خبروں میں کہا گیا کہ پی ایم ایس نے ’جل پری‘ نامی انڈین ماہی گیروں کی کشتی کو مبینہ طور پر بین الاقوامی پانیوں میں فائرنگ کا نشانہ بنایا جس میں ایک ماہی گیر ہلاک ہوا، جبکہ دیگر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے مچھیرے کا نام شری در چامرے تھا، جس کا تعلق بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ضلع پلغار سے ہے۔ دوسری جانب ریاست گجرات کے ساحلی شہر پوربندر میں اس واقع کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مقدمہ مذکورہ واقعے میں مبینہ طور پر زخمی ہونے والے ماہی گیر دلِپ سولنگی کی مدعیت میں درج ہوا ہے جس میں 10 پاکستانی اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے۔
دوسری جانب پی ایم ایس اے کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’جل پری‘ نامی کشتی یا اس کے عملے کی تعداد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
پی ایم ایس اے ترجمان نے بتایا کہ ’پانچ نومبرکو پی ایم ایس اے کا جہاز مشرقی میری ٹائم ریجن میں معمول کی گشت پر تھا جس نے غیرقانونی ماہی گیری میں ملوث پاکستانی ایکسکلوزیو ایکنامک زون میں تقریباً آٹھ ناٹیکل میل کے فاصلے پر چند بھارتی ماہی گیروں کی کشتیوں کا مشاہدہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بھارتی ماہی گیروں کی کشتیوں کو بھارت کی طرف موڑ دیا گیا۔ ہدایات پرعمل نہ کرنے والی ’پدمنی‘ اور ’کوپا‘ نامی کشتیوں میں سے ایک کو پکڑا گیا جسے قانونی کارروائی کے لیے چھ نومبر کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔‘
پی ایم ایس اے کے مطابق ’جل پری‘ نامی کشتی یا اس کے عملے کی تعداد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ترجمان میری ٹائم سکیورٹی نے مزید بتایا کہ کشتی کے عملے کے نام بھوپت بابو (نکھودا)، سنجے شیدوا، کشور مشیا، نیریندر بوجاد، اجے ووڈو، سنتوش اور رامو بوجاد ہیں۔
’پی ایم ایس اے کسی ایسے واقعے سے لاعلم ہے جہاں کوئی ہلاک یا زخمی ہوا ہو۔‘
پکڑی گئی کشتی کی سرکاری دستاویزات میں ایسا کوئی نام نہیں دکھایا گیا جیسا کہ کچھ انڈین میڈیا نے دعویٰ کیا۔ پی ایم ایس اے کو کشتی ’جل پری‘ یا اس کے عملے کی تعداد کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔
پی ایم ایس اے ترجمان کا کہنا تھا کہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق پی ایم ایس اے قانون نافذ کرنے والے اقدامات کرتے وقت غیر مہلک ذرائع استعمال کرتا ہے جبکہ ماہی گیروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت انسانی ہمدردی کے پہلوؤں کو ہمیشہ مدِنظر رکھا جاتا ہے۔