بلوچستان یونیورسٹی سے دو طالب علم لاپتا، طلبہ تنظیموں کا احتجاج
بلوچستان یونیورسٹی سے دو طالب علم لاپتا، طلبہ تنظیموں کا احتجاج
منگل 9 نومبر 2021 16:45
منگل کو طلبہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر احتجاج کیا اور یونویرسٹی کے تمام دروازوں کو ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند کر دیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
کوئٹہ میں طلبہ نے دو ساتھی طالب علموں کی گمشدگی کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی کے دروازے بند کر کے احتجاج کیا ہے۔ طالب علموں کے احتجاج کے باعث یونیورسٹی کے امتحانات بھی نہ ہو سکے۔
بلوچستان یونیورسٹی پولیس کے مطابق دونوں طلبہ کے اغوا کا مقدمہ طالب علم فصیح بلوچ کے بھائی شنہشاہ کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
ایس ایس پی آپریشن اسد ناصر نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور معاملے کی جانچ کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین زبیر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاپتہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ نوشکی کے رہائشی اور بلوچستان یونیورسٹی کے پاکستان سٹیڈیز ڈپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں۔
زبیر بلوچ کے مطابق دونوں طالب علم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے اور یکم نومبر کو یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس سے چند روز قبل یونیورسٹی کے دو دیگر طالب علم جمیل بلوچ اور عبدالرحمان بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ جس ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے، اس کا ایک بڑا حصہ فرنٹیئر کور(ایف سی) کے کنٹرول میں ہے۔ وہاں کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گمشدگی کے وقت کے دوران کی فوٹیجز دستیاب نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اندر سے طلبہ کی گمشدگی کے باعث باقی طالب علم خوفزدہ ہیں، لاپتہ طلبہ کے لواحقین اور طلبہ تنظیموں نے وائس چانسلر سے بات کی مگر انہوں نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
زبیر بلوچ کے مطابق ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود طلبہ بازیاب نہیں ہوئے، اس لیے منگل کو طلبہ تنظیموں نے مشترکہ طور پر احتجاج کیا اور یونویرسٹی کے تمام دروازوں کو ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند کر دیا جس کے بعد طلبہ اور اساتذہ سمیت کوئی یونیورسٹی میں داخل نہیں ہو سکا۔
طلبہ نے یونیورسٹی میں ہونے والے امتحانات کا بائیکاٹ بھی کیا۔
لاپتہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ نوشکی کے رہائشی اور بلوچستان یونیورسٹی کے پاکستان سٹیڈیز ڈپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان یونیورسٹی پولیس کے مطابق دونوں طلبہ کے اغوا کا مقدمہ طالب علم فصیح بلوچ کے بھائی شنہشاہ کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
بی ایس او چیئرمین زبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ پولیس اور نہ ہی یونیورسٹی انتظامیہ اس معاملے پر کچھ بتا رہی ہے۔ ایس ایس پی آپریشن اسد ناصر نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور معاملے کی جانچ کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران چھ افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں طلبہ اپنے تعلیمی مسائل کے لیے احتجاج کرتے ہیں مگر بلوچستان میں طلبہ اپنے ساتھیوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔