’نیدرلینڈز نے 3 ہزار 159 جبکہ سپین اور فرانس نے پچیس پچیس سو افغانوں کی دوبارہ آبادکاری پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘
یلوا جانسن کا کہنا ہے کہ ‘میرا خیال ہے کہ یہ اظہار یکجہتی کا ایک متاثرکن اظہار ہے۔
جوہانسن نے یہ دلیل دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ افغانوں کو کنٹرول شدہ طریقے سے ہجرت کرنے کی اجازت دینے سے ’غیر قانونی آمد‘ کو روکنے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ پانچ برسوں میں 42 ہزار 500 افغان باشندوں کو آباد کرے تاہم 27 رکن ممالک میں سے کچھ کی جانب سے اس کی مزاحمت کی گئی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق 85 ہزار افغان باشندے ایسے ہیں جو اپنے آبائی وطن سے یورپی یونین کے قریبی ممالک میں پہنچ چکے ہیں۔
طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد اور شدید خشک سالی سے افغانستان چھوڑنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
امریکی فوجی انخلا اور طالبان کی حکومت کی واپسی کے بعد اگست میں یورپی یونین کے 24 ممالک پہلے ہی انخلا کرنے والے 28 ہزار افراد کو پناہ دے چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے خبردار کیا ہے کہ ’یورپی یونین سے باہر 85 ہزار افغان باشندے غیر محفوظ حالات میں رہ رہے ہیں۔‘
’ انہیں دوبارہ آبادکاری کی ضرورت ہے، انہوں نے یورپ پر زور دیا ہے کہ ان میں سے آدھی تعداد کو اپنے یہاں آباد کرے۔‘