Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آر ٹو پی‘ ہے کیا اور وزیراعظم عمران خان پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟

سوشل میڈیا صارفین اور ماہرین افغانستان میں ’آر ٹو پی‘ کے اطلاق کی تجویز پر وزیراعظم پر تنقید کررہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان گزشتہ روز سے سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ ان کی ایک ٹویٹ بنی ہے جس میں انہوں نے افغانستان میں ’بھوک و فاقہ کشی‘ کو ختم کرنے کے حوالے سے ’ریسپونسیبلیٹی ٹو پروٹیکٹ‘ یعنی ’آر ٹو پی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے افغانستان کی مدد کرنے کی اپیل کی۔
سنیچر کو اپنی ایک ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ ’عالمی برادری کی جانب سے ہنگامی طور پر بھوک و فاقہ کشی کے کنارے پر کھڑے کروڑوں افغانوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد درکار ہے جو کہ متفقہ طور پر اختیار کیے گئے اقوام متحدہ کے فراہمی تحفظ کے اصول (آر ٹو پی) کے تحت یہ ہنگامی مدد فراہم کرنے کی پابند بھی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر صارفین وزیراعظم عمران خان پر ’آر ٹو پی‘ جیسے ٹرم کو نہ سمجھنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
اپنی ایک ٹویٹ میں تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے آر ٹو پی کے بارے میں سمجھاتے ہوئے لکھا کہ اس کے ذریعے بین الاقوامی برادری بشمول کسی عسکری دخل اندازی کہ بڑے پیمانے پر تشدد روکنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کے بیان کے حوالے سے مزید لکھا کہ ’واضح طور پر کوئی غلطی ہوئی ہے، اگر پاکستان کی افغانستان پالیسی میں 360،000 کا کوئی یو ٹرن نہیں آٰیا تو۔‘
وزیراعظم عمران خان خود کہتے ہیں کہ وہ افغانستان یا کسی اور ملک میں کسی بھی قسم کی عسکری مداخلت کے خلاف ہیں شاید اس لیے مائیکل کگلمین نے اپنی ٹویٹ میں ’یو ٹرن‘ کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان کے سابق سفارتکار عبدالباسط بھی ٹوئٹر پر وزیراعظم کی طرف سے ’آر ٹو پی‘ جیسی اصطاح کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے۔

 

اپنی ایک ٹویٹ میں عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ’آر ٹو پی کا افغانستان کی موجودہ انسانی صورتحال سے کچھ لینا دینا نہیں۔‘
سابق سفارتکار نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ جس شخص نے انہیں ’آر ٹو پی‘ کی خطرناک تعریف کے بارے میں بتایا اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
امریکی تھنگ ٹینگ ’اٹلانٹک کونسل‘ کے ساؤتھ ایشیا سینٹر کے عہدیدار عزیر یونس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’آر ٹو پی کا اطلاق روانڈا اور یوگو سلاویا جیسے ممالک میں ہوا تھا جہاں بدترین تشدد دیکھنے میں آیا تھا۔‘
’یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی ذمی داری ہے کہ خطرناک تشدد کی روکا تھام کے لیے کسی خودمختار ریاست کے امور میں مداخلت کرے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’آر ٹو پی‘ کا اطلاق لیبیا میں معمر قدافی کی حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد بھی ہوا تھا۔

پاکستانی تجزیہ کار مشرف زیدی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آر ٹو پی‘ کے اطلاق پر بحث چار شرائط پر پر ہوتی ہے جیسے کہ اگر کہیں نسل کشی کی جارہی ہو، جنگی جرائم ہورہے ہوں، انسانیت کے خلاف جرائم ہو رہے ہوں یا لسانی طورپر قتل و غارت گری ہو رہی ہو۔

انہوں نے مزید لکھا کہ اگر ان چار چیزوں میں سے کوئی چیز افغانستان میں نہیں ہورہی تو وہاں ’آر ٹو پی‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

یہ ’آر ٹو پی‘ ہے کیا؟

گلوبل سینٹر فار دا رسپانسیبلیٹی ٹو پروٹیکٹ‘ کے مطابق ’آر ٹو پی‘ بین الاقوامی برادری کو پابند کرتا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی جگہ ’نسل کشی‘، ’جنگی جرائم‘، ’لسانی بنیادوں پر نسل کشی‘ یا ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو روکنے میں ناکام نہ ہو۔
ادارے کے مطابق ’آر ٹو پی‘ کا تصور 90 کی دہائی میں اس وقت سامنے آیا تھا جب بین الاقوامی برادری روانڈا یا سابقہ یوگو سلوایا میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت روکنے میں ناکام ہوئی تھی۔
’آر ٹو پی‘ کو سنہ 2005 میں اقوام متحدہ کے ورلڈ سمٹ میں متفقہ طور پر سربراہان ریاست کی موجودگی میں منظور کیا گیا تھا۔
’گلوبل سینٹر فار دا رسپانسیبلیٹی ٹو پروٹیکٹ‘ کے مطابق ’آر ٹو پی‘ کے تین ستون ہیں۔
پہلا ستون کہتا ہے کہ ہر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آبادی کو نسل کشی، جنگی جرائم یا لسانی معدومیت سے بچائے۔
دوسرے ستون کے مطابق بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آبادی کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے ہر ریاست کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرے۔
’آر ٹو پی‘ کے تیسرے ستون کے مطابق اگر کوئی ریاست اپنی آبادی کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت مناسب کارروائی کرنے کے لیے تیار رہے۔

شیئر: