Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عدالتوں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں کے یومیہ 155 مقدمات

تنازعات کا 60 فیصد بچوں کی پرورش سے متعلق ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
سعودی عدالتوں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑوں کے 155 مقدمات ہر روز پیش کیے جا رہے ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں بچوں کی پرورش کے حق پر تنازعات معمول بن گئے ہیں۔ 
عکاظ اخبار کے مطابق ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ’سعودی عدالتوں میں طلاق کے تنازعات کے حوالے سے یومیہ 155 مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمارپچھلے تین برس کے ہیں۔‘
’ان تنازعات میں 60 فیصد کا تعلق بچوں کی پرورش کے حق اور 30 فیصد کا نان نفقے اور 10 فیصد کا تعلق نان نفقے میں اضافے سے ہے۔‘
دمام میں عائلی امور کی اپیل کورٹ میں ایک مقدمہ آیا، جس میں ماں نے اپنے بچوں کی پرورش کا حق طلب کیا تھا۔ بچوں کی عمریں چار تا پانچ برس کے درمیان تھیں۔
اس سے قبل عائلی امور کی پرائمری عدالت بچوں کی پرورش کا حق باپ کو دے چکی تھی کیونکہ ماں دستبردار ہو گئی تھی۔
ماں نے اپیل کورٹ میں مقدمہ دائر کرکے بچوں کی پرورش کا حق اس بنیاد پر طلب کیا تھا کہ جس وقت اس نے دستبرداری دی تھی وہ بیمار تھیں، اب جبکہ وہ صحت یاب ہوچکی ہیں، اپنے بچوں کی پرورش خود کرنا چاہتی ہیں۔  
سعودی اعلیٰ عدالتی کونسل عدالتوں کو ہدایت دے چکی ہے کہ ’اگر علیحدگی کے بعد میاں بیوی کے درمیان اختلاف نہ ہو تو ایسی صورت میں بچوں کی پرورش کا اختیار ماں کو دیا جائے۔ اس کے  لیے اسے مقدمہ دائر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘ 
فوجداری کی خصوصی عدالت کے سابق جج ڈاکٹر یوسف الغامدی نے بتایا کہ دراصل پرورش کے استحقاق کا فیصلہ بچوں کے مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ 
 بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں کی ہے۔ جج بچوں کے مفاد کا تعین کرکے ماں باپ میں سے کسی ایک کو پرورش کی ذمہ داری تفویض کر دیتا ہے۔ 
خاتون وکیل نجود قاسم نے بتایا کہ ’بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں بچوں کی پرورش کا اختیار باپ ہی کا ہوتا ہے اور ماں اس سے محروم ہوجاتی ہے۔‘  
’اگر بچہ شیرخوار ہے تو ایسی صورت میں اس کی پرورش کا اختیار ماں کو دیا جائے گا۔‘ 
نجود قاسم نے مزید کہا کہ ’اگر بچے کی عمر پانچ یا چھ برس ہو تو ایسی صورت میں بچہ بتا سکتا ہے کہ وہ ماں باپ میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔‘
 

شیئر: