Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باہمت خواتین کی متاثر کن کہانیوں پر مبنی خوبصورت کتاب 'She Dares'

سعودی مصنفہ کا کہنا ہے کہ انسانی سرمایہ مالیاتی سرمائے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ فوٹو عرب نیوز
دنیا بھر کے کئی ممالک میں موجود باہمت خواتین کی متاثر کن کہانیوں کو یکجا کر کے کتابی شکل دی گئی ہے جس کا نام 'She Dares'ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ارجنٹائن، ہالینڈ، کینیڈا، بحرین اور اردن سمیت دیگر ممالک کی خواتین کی جانب سے لکھی گئی باہمی تعاون پر مبنی کہانیوں کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں مختلف موضوعات جس میں مختلف قسم کی کامیابیوں جن میں کامیاب بزنس کے علاوہ کسی بیماری پر ہمت کے ساتھ قابو پانے کے ساتھ ساتھ اسی طرح کی دیگر کہانیاں شامل ہیں جس سے انہیں ایک نیا جذبہ اور ولولہ میسر آیا۔
منفرد نوعیت کی کتاب 'She Dares' دبئی ایکسپو2020 کے سویڈش پویلین میں ایک معروف ادارے  نے لانچ کی ہے جہاں کچھ مصنف خواتین اس کتاب پر اپنے دستخط کرنے کے لیے جمع  ہوئی تھیں۔
اس موقع پر سعودی مصنفہ ہبہ عبدالوہاب خاشقجی کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے بتایا ہے کہ میں نے اس کتاب میں اپنی کہانی شیئر کی ہے کہ وہ  مصنفہ کیسے بن گئیں۔
ہبہ عبدالوہاب نے بتایا کہ جب مجھ سے اس کتاب میں کہانی لکھنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو میں نے کہا کہ میں تو صرف بچوں کی کہانیاں لکھتی ہوں، انہوں نے مجھے پہلا مسودہ لکھنے پر زور دیا جس کے بعد مجھے ہمت ملی۔

اگر آپ کے پاس الفاظ کی مہارت ہے تو ضرور لکھنا شروع کریں۔ فوٹو عرب نیوز

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل میں نے کبھی خود کو مصنفہ کے طور پر نہیں جانا تھا تاہم بچپن سے ہی انسانی جذبات کے بارے میں لکھنے کی عادی تھی جس نے انہیں مصنفہ کے طور پر اپنی پہچان کرانے میں مدد دی۔
46 سالہ ہبہ عبدالواہاب نے بتایا کہ وہ اپنے معاشرے کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اکاؤنٹنگ اینڈ  فنانس سے  اپنا کیریئر موڑ کر ہیومن ریسورسز کی جانب منتقل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے اس بات کو دلی طور پر محسوس کیا کہ انسانی سرمایہ مالیاتی سرمائے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
ہبہ نے بتایا کہ میرے لیے لکھنا ایک ایسا شوق تھا جس سے میرا مقصد بھی حل ہو، ایسا شوق جس سے لوگوں کی مدد ہو سکے۔ میں نے بچوں کے لیے جو کتابیں لکھیں وہ بھی معاشرے میں اقدار، مذہب اور ثقافت سکھانے کے لیے تھیں تا کہ ہم انہیں سکھائیں کہ ہم کیا ہیں اور یہ سب کیوں کرتے ہیں۔
انہوں نے بتا یا کہ اس خاص کتاب کے لیے کہانی لکھنا میرے نزدیک ایک چیلنج تھا اور میری خواہش تھی کہ پڑھنے والے متوجہ ہوں۔ میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے اور امید ہے کہ پڑھنے والے اسے پسند کریں گے۔

ہبہ بچپن سے ہی انسانی جذبات کے بارے میں لکھنے کی عادی تھیں۔ فوٹو عرب نیوز

مجھے معلوم ہے کہ اس کتاب میں شائع ہونے والی کہانیوں سے پڑھنے والے کو تحریک ملے گی اور یہی میرا مقصد ہے کہ معاشرے کی ترقی میں ہر پہلو سے مدد کی جائے۔
ہبہ عبدالوہاب کا کہنا ہے کہ اس بات پر فخر ہے کہ میری تحریر کردہ بچوں کی کتابیں مقامی طور پر مقبول ہیں۔
خاص طور پر جب سکولوں میں بچوں کو اپنی کتاب میں تحریر کردہ کردار وں کے بارے میں بات کرتے سنتی ہوں تو انتہائی خوشی ہوتی ہے۔
اس کتاب کے ایک باب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زندگی کے مشکل لمحات سے گزر کر میں اسے کچھ خوبصورت بنانے میں کامیاب ہوئی ہوں۔
آخر میں ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے پاس الفاظ کی مہارت ہے تو ضرور لکھنا شروع کریں اور آپ اپنےالفاظ کے بہاؤ پر حیران رہ جائیں گے، آپ کو بس لکھنے کا آغاز کرنا ہے اور پھر الفاظ اپنا جادو جگائیں گے۔
 

شیئر: