Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپنے ملک میں رہنا مشکل ہوا تو پاکستان ہی واحد آپشن: افغان مہاجرین

وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق دو لاکھ 56 ہزار افغان واپس جا چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
’جب یقین ہو گیا کہ طالبان بہت جلد ہمارے شہر کہ دہلیز پر پہنچ جائیں گے اور دوسری جانب شہر میں موجود شمالی اتحاد کے حامی بھی مقابلے کے لیے صف بندی میں مصروف تھے، تو ہم نے ایک بار پھر پاکستان کے سفر کا فیصلہ کیا۔ راستے کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن یہاں پہنچ کر جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہوا وہ کرائے پر مکان کا حصول تھا۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان کی وادی پنجشیر کے رہائشی عبدالمنان کا جو اپنے خاندان کے دس افراد کے ہمراہ ایک بار پھر بے وطن ہو کر پاکستان پہنچے ہیں جہاں وہ آج سے 22 سال قبل بھی آئے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب وہ پہلی بار آئے تھے تو ان کے بچے چھوٹے تھے لیکن اب ان کے بچوں کے بچے چھوٹے ہیں۔
اس وقت تو انہیں وقتی طور پر پشاور میں افغان مہاجر کیمپ میں جگہ مل گئی تھی جہاں سے وہ بعد میں پشاور میں کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے تھے اور وہاں انہوں نے موٹر مکینک کے طور پر اپنا کام بھی شروع کیا اور بچوں کو سکول داخل کرایا۔ افغانستان کے حالات بہتر ہونے کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تھے۔
افغانستان میں طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہزاروں افغان خاندان پاکستان آئے ہیں جن میں سے بڑی تعداد نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام آباد میں کرائے کے مکانوں کی قلت ہوگئی ہے جبکہ مختلف سیکٹرز میں کرایوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق 15 اگست 2021 کے دوران افغانستان سے قانونی طور پر بذریعہ سڑک اور ہوائی جہاز تین لاکھ 99 ہزار افغان باشندے پاکستان آئے ہیں۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان میں سے دو لاکھ 56 ہزار باشندے واپس جا چکے ہیں اور باقی پاکستان میں ہی رہ رہے ہیں۔
’ان میں سے زیادہ تر پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں تاہم ابھی تک وفاق اورصوبوں میں کرائے کے مکانوں میں منتقل ہونے والے افغان خاندانوں کا ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا سکا۔ اس حوالے سے قانون کے مطابق تمام صوبوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ افغان خاندانوں کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کر لیں۔‘
شیخ رشید نے کہا کہ ’یہ وہ تعداد ہے جو قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوگ آئے ہوں گے لیکن ہمارے پاس ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔‘

وزارت داخلہ کے مطابق انخلا کے دوران تین لاکھ 99 ہزار افغان پاکستان آئے (فوٹو: اے ایف پی)

اسی حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے ریکارڈ کے مطابق 15 اگست کے بعد ایک لاکھ پانچ ہزار افغان شہری پاکستان آئے ہیں۔ ان کے پاس اگرچہ پاکستان کے ویزے موجود ہیں لیکن انہوں نے خود کو یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ کرایا ہے۔ ان میں سے کچھ افغان مہاجر کیمپوں میں، کچھ اپنے رشتہ داروں اور کچھ کرائے کے مکانوں میں مختلف شہروں میں مقیم ہیں۔‘
افغان شہری عبدالمنان نے ایک بار پھر پاکستان آنے سے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کی غرض سے کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستان کے ویزے حاصل کر لیے تھے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات ایسا پلٹا کھائیں گے کہ انہیں کچھ عرصے کے لیے پاکستان منتقل ہونا پڑے گا۔ 
عبدالمان نے بتایا کہ کوشش کے باوجود وہ ہوائی جہاز کے ذریعے افغانستان سے نکلنے کا موقع کھو چکے تھے جس کے انہوں نے سڑک کے راستے طورخم کا رخ کیا اور پشاور پہنچ گئے۔
’راستے میں کئی ایک مقامات پر لگا کہ کوئی پکڑ لے گا اور ہماری وضع قطع سے پہچان کر گرفتار کر لے گا لیکن خواتین اور بچوں کی وجہ سے کسی نے نہیں روکا تاہم سفر میں مشکلات بہت تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ کچھ دن تو پشاور میں اپنے رشتے دار کے ساتھ گزارے لیکن دس افراد کے کنبے کو کون کب تک اپنے گھر میں رکھ سکتا تھا لہٰذا مکان کرائے پر لینے کا سوچا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
’کسی نے ہمیں اسلام آباد جانے کا مشورہ دیا۔ ابتدائی طور پر ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں مکان لے لیا لیکن وہاں بھی مشکلات نے پیچھا نہ چھوڑا۔ ایک تو ہر کوئی شک کی نگاہ سے دیکھتا اوپر سے نجی سوسائٹی کے رہن سہن کے مطابق اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ جمع پونجی ختم ہو رہی تھی۔‘

افغانوں کی بڑی تعداد گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہے۔ فوٹو اے ایف پی

عبدالمنان کے مطابق جب انہوں نے مکان تبدیل کرنے کا سوچا تو معلوم ہوا کہ اسلام آباد کے سیکٹرز میں اول تو کوئی مکان دستیاب ہی نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کا کرایہ بہت بڑھ چکا ہے، بالآخر انہیں مضافات میں ایک مکان لینا پڑا۔
’میرے کئی جاننے والے ایسے ہیں جو کرائے پر مکان لینے کے خواہاں ہیں لیکن انہیں مکان نہیں مل رہا۔ اس کی ایک وجہ تو مکانوں کی قلت ہے اور دوسری وجہ افغان شہریوں پر عدم اعتماد بھی ہے۔‘
عبدالمنان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان سے نکلنے والے وہی لوگ ہیں جو سابق حکومت کے حامی تھے۔ سابق حکومت کے حامیوں کے بارے میں یہ بھی تاثر ہے کہ وہ پاکستان مخالف بھی ہیں۔ اب لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہماری آدھی زندگیاں پاکستان میں گزری ہیں۔ اگر افغانستان میں ہمارا رہنا مشکل ہوگا تو ہمارے پاس پاکستان ہی واحد آپشن ہے۔‘
پراپرٹی ڈیلر ندیم ریاض نے اردو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ سال اگست اور ستمبر میں پاکستان آنے والے افغانوں میں اکثریت امیر لوگوں کی تھی جو اکثر و بیشتر پاکستان آتے رہتے تھے، ان کے یہاں کاروبار ہیں اور یا پھر یہاں بیٹھ کر باقی ممالک میں اپنے کاروبار دیکھتے ہیں۔
’جونہی افغانستان میں حالات تبدیل ہوئے تو وہ اپنے خاندانوں کو یہاں لے آئے۔ اسی وجہ سے اسلام آباد کے اہم سیکٹرز میں گھر کرائے پر نکل گئے۔ بعد میں آنے والوں کو مکان کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اب تو مقامی افراد کے لیے مکان ناپید ہو چکے ہیں۔‘
ندیم ریاض کے مطابق ’مالک مکان سمجھتے ہیں کہ اگر کسی مقامی کرایہ دار کی معلومات مقامی تھانے میں نہ بھی دیں تو کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا کیونکہ ہزاروں میں سے ایک کرائے دار کے ساتھ قانونی معاملات یا امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی غیر ملکی بالخصوص افغان شہریوں کو مکان دینے اور اس حوالے سے قانونی لوازمات پورے کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے افغان شہریوں کے لیے مکانات کرائے پر حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔‘

شیئر: