’جب یقین ہو گیا کہ طالبان بہت جلد ہمارے شہر کہ دہلیز پر پہنچ جائیں گے اور دوسری جانب شہر میں موجود شمالی اتحاد کے حامی بھی مقابلے کے لیے صف بندی میں مصروف تھے، تو ہم نے ایک بار پھر پاکستان کے سفر کا فیصلہ کیا۔ راستے کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن یہاں پہنچ کر جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہوا وہ کرائے پر مکان کا حصول تھا۔‘
یہ کہنا ہے افغانستان کی وادی پنجشیر کے رہائشی عبدالمنان کا جو اپنے خاندان کے دس افراد کے ہمراہ ایک بار پھر بے وطن ہو کر پاکستان پہنچے ہیں جہاں وہ آج سے 22 سال قبل بھی آئے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب وہ پہلی بار آئے تھے تو ان کے بچے چھوٹے تھے لیکن اب ان کے بچوں کے بچے چھوٹے ہیں۔
اس وقت تو انہیں وقتی طور پر پشاور میں افغان مہاجر کیمپ میں جگہ مل گئی تھی جہاں سے وہ بعد میں پشاور میں کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئے تھے اور وہاں انہوں نے موٹر مکینک کے طور پر اپنا کام بھی شروع کیا اور بچوں کو سکول داخل کرایا۔ افغانستان کے حالات بہتر ہونے کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
افغانستان سے ’فرار‘ کے معاوضے آسمان کو چُھونے لگےNode ID: 644471
-
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے چھ ماہ، مالی بحران اور انخلاNode ID: 644801
-
افغانستان: ماہر نشانہ باز طالبان جنگجو اب میئر کے کردار میںNode ID: 644971