Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد،پاکستانی سیاست میں کیا ہونے جارہا ہے؟

مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی کے بیان سے حکومتی صفوں میں کچھ اعتماد بحال ہوا (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)
پاکستان میں گذشتہ دو ہفتوں سے سیاسی ملاقاتوں کا دور جاری ہے اور ملکی سیاست پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔  
اس سلسلے کا آغاز 4 فروری کو صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے ٹیلی فونک رابطے سے ہوا جس کے اگلے ہی روز شہباز شریف نے سابق صدر کو ظہرانے پر مدعو کرلیا۔
اس ملاقات میں شہباز شریف کے علاوہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی شریک تھیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ بلاول بھٹو بھی شہباز شریف کی دعوت پر ظہرانے میں شریک ہوئے۔  
ملاقات میں سابق صدر نے اپوزیشن جماعتوں کو ایک بار پھر اکٹھا ہونے اور تحریک عدم اعتماد پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ اس ملاقات کے فوری بعد شہباز شریف نے لندن میں موجود سابق وزیراعظم نوازشریف سے رابطہ کیا جس میں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلانے پر اتفاق کیا گیا۔  
8 فروری کو حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے وفد نے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں شہباز شریف نے عدم اعتماد کی تحریک پر ایم کیو ایم سے تعاون طلب کیا، اسی روز ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران سے بھی ملاقات کی اور ملکی سیاست پر مشاورت کی گئی۔ 
8 فروری کو مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے پیغام سے شہباز شریف نے پارٹی کو آگاہ کیا اور اجلاس میں تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ معاملہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سامنے رکھنے کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
11 فروری کو لاہور میں شہباز شریف کی رہائش گاہ پر مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔  
خیال رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے معاملے پر پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں میں اختلافات سامنے آنے کے بعد مولانا فضل الرحمان پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے رہے ہیں۔  

ملکی سیاست میں موجودہ ہلچل شہباز شریف اور آصف زرداری کے رابطوں کے بعد آئی (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

اس اجلاس کے بعد  سابق صدر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور دونوں رہنماؤں کے درمیان جلد ملاقات پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اسی روز مولانا فضل الرحمان حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے گھر چوہدری برادارن سے ملاقات کے لیے پہنچے اور انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے لیے تعاون مانگا جبکہ شہباز شریف سے چوہدری برادران سے ملاقات کی راہ بھی ہموار کی۔ 
اگلے ہی روز 12 فروری کو شہباز شریف مسلم لیگ ن کے وفد کے ہمراہ لاہور میں چوہدری برادران کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ چوہدری پرویز الٰہی سے ملکی سیاسی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ 
مقامی میڈیا میں تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان لاہور میں کسی خفیہ مقام پر ملاقات کی خبریں گردش کرتی رہیں۔
تاہم جے یو آئی ف کی جانب سے اس ملاقات کی تردید کی گئی جبکہ جہانگیر ترین کے گروپ نے اس مخصوص ملاقات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی لیکن انہوں نے سیاسی لوگوں کی جانب سے رابطوں کی تصدیق ضرور کی ہے۔  

سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’عدم اعتماد کی تحریک لانے کی حکمت عملی میں کافی کمزوریاں نظر آرہی ہیں‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

ملک میں دو ہفتوں سے جاری پے درپے سیاسی ملاقاتوں اور رابطوں سے چھائی غیر یقینی صورت حال میں کچھ کمی مونس الٰہی کے اس بیان سے ضرور ہوئی جب انہوں نے 14 فروری کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کو تحریک انصاف کے لوگوں کو نہ گھبرانے کا پیغام دینے کو کہا۔
مسلم لیگ ق کے رکن اور وفاقی وزیر مونس الٰہی کی اس یقین دہانی کے بعد حکومتی صفوں میں کچھ اعتماد بحال ہوا ہی تھا تو ایک روز بعد جہانگیر ترین گروپ کے ارکان کے لاہور میں عون چوہدری کی رہائش گاہ پر اجلاس نے ایک بار پھر صورت حال غیر واضح کر دی۔
اس اجلاس کے فوراً بعد مسلم لیگ ق نے بھی اسلام آباد میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا اور حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ سیاسی صورت حال پر فیصلوں کا اختیار سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کو دے دیا۔ 
جہانگیر ترین گروپ کیا سوچ رہا ہے؟ 
جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے جارہے ہیں اور موجودہ سیاسی صورت حال سے متعلق مشاورت کی جارہی ہے۔ تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور تمام ارکان نے فیصلوں کا اختیار جہانگیر ترین کو دیا ہے۔‘  

سیاسی ماہرین کے مطابق ‘جہانگیر ترین گروپ فوری طور پر نئے انتخابات کروانے کے حق میں نہیں ہے‘ (فائل فوٹو: جہانگیر ترین ٹوئٹر)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت تک تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے، جب تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی عملی اقدام اپوزیشن کی جانب سے اٹھایا جائے گا تو تحریک انصاف کی قیادت رابطہ کرے گی اور اس کے بعد ہی کوئی حکمت عملی طے کی جائے گی، اس وقت کوئی بھی چیز حتمی نہیں۔‘ 
پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والی سینیئر صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’جہانگیر ترین اور آصف علی زرداری کے درمیان رابطے ماضی میں بھی رہے ہیں اور اس وقت بھی دونوں رابطے میں ہیں۔‘
’تاہم حالیہ دنوں میں مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی جہانگیر ترین سے رابطہ کیا گیا ہے اور عدم اعتماد کے حوالے سے تعاون مانگا ہے تاہم اس وقت جہانگیر ترین اور پرویز الٰہی بھی اسٹیبلشمنٹ کے پیغام کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ ان دونوں کو مسلم لیگ ن کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے اور اگر ان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے یقین دہانی کروائی جاتی ہے تو پھر ان کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا جائے گا اور اس وقت تمام جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سگنل کا انتظار کررہی ہیں۔‘ 

حالیہ دنوں میں شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سمیت کئی رہنماؤں نے مسلم لیگ ق سے بھی رابطے کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر صحافی سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت جہانگیر ترین کے پاس اپوزیشن کی حمایت کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے اور عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے جبکہ دیگر اتحادی جماعتیں اس وقت سوچ بچار کر رہی ہیں اور تحریک انصاف کے اندر سے اگر کوئی بڑا گروپ تعاون کرے گا تو اس کے بعد ہی وہ کسی فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘  
کیا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو پائے گی؟ 
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’اس وقت اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے بظاہر سنجیدہ نظر آرہی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عدم اعتماد بہت مشکل سے کامیاب ہوتی ہے، اگر تحریک انصاف کے اندر سے 20، 25 ارکان کا گروپ سامنے آجائے تو ہی کامیاب ہوگی۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک غیر جانبدار ہی نظر آرہی ہے اور اس کی غیر جانبداری کا فائدہ اس وقت حکومت کو ہوگا۔‘ 
سینیئر صحافی اور کالم نگار عامر خاکوانی بھی اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اپوزیشن نے رابطے شروع کر دیے ہیں اور اپنے کارڈز نمایاں کر دیے ہیں، اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کارڈز چھپا کر رکھے ہیں اور اس وقت تو اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہی نظر آرہی ہے۔‘  

’مسلم لیگ ن فوری طور پر اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشنز کروانا چاہتی ہے‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ٹوئٹر)

عامر خاکوانی کے مطابق ’مسلم لیگ ن اس وقت پنجاب میں انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ چاہتی ہے کہ اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کروائے جائیں لیکن مسلم لیگ ق اور جہانگیر ترین گروپ نئے الیکشن کے حامی نہیں ہیں۔‘
’وہ ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ضرور ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی یقین دہانی پر اعتبار نہیں کیونکہ ایک دفعہ عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے تو وہ اسمبلی تڑوا دیں گے اور گیم چوہدریوں کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔‘  
آصف علی زرداری نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے لیے کیسے آمادہ کیا؟ 
عامر خاکوانی کے مطابق ’آصف علی زرداری نے شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مکمل روڈ میپ دیا ہے۔ انہوں نے شریف خاندان کے ساتھ یہ شیئر کیا ہے کہ کیسے انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوایا جس میں جہانگیر ترین کے گروپ کے ارکان نے بھی ووٹ یوسف رضا گیلانی کو دیا۔‘
’اس کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بھی ان کے رابطے موجود ہیں اور انہیں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جائے گی۔‘ 
سہیل وڑائچ کے مطابق ’آصف علی زرداری اس وقت تحریک عدم اعتماد کے لیے سنجیدہ ہیں لیکن ابھی تک عدم اعتماد کی تحریک لانے کی حکمت عملی میں کافی کمزوریاں نظر آرہی ہیں اور فی الحال تو یہ کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔‘ 

شیئر: