پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان جاری تاریخی ٹیسٹ سیریز میں اب تک کرکٹ کے میدان میں جو کچھ ہوا اس سے تو شائقین کو مایوسی ہی ہو رہی ہے البتہ کرکٹ کے علاوہ اس دورے میں دیگر سرگرمیاں انتہائی دلچسپی کا سبب بن رہی ہیں۔
چاہے وہ آسٹریلوی کھلاڑیوں کی کرکٹ میدان پر ڈانس کرتے ہوئے ویڈیوز ہوں، شائقین کرکٹ کے دلچسپ پلے کارڈز ہوں یا پنڈی سٹیڈیم میں آنے والے تماشائیوں کا جوش و خروش، اس سب سے نہ صرف کرکٹ شائقین بلکہ کرکٹ میں دلچسپی نہ رکھنے والے بھی ان لمحات سے لطف اندوز ہوئے۔
مزید پڑھیں
-
’بتاؤ میں کیا کھاؤں، سیور یا ماموں برگر؟‘Node ID: 447921
-
’گینگز آف واسع پور پنڈی ایڈیشن‘Node ID: 534881
-
’یقین نہیں آرہا کہ مچل سٹارک کو پنڈی میں کھیلتا دیکھ رہے ہیں‘Node ID: 649901
غیر ملکی صحافی بھی اب تک ہونے والے میچز سے زیادہ خوش نہیں دکھائی دے رہے لیکن کرکٹ سے زیادہ دیگر سرگرمیاں ان کو زیادہ پرجوش رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تاریخی سیریز کی کوریج کے لیے موجود نیوزی لینڈ کے صحافی اینڈریو میکلین نے گراؤنڈ جانے سے شہر کا دورہ کرنے کو بہتر سمجھا۔
اینڈریو میکلین سے میری پہلی ملاقات پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے میڈیا باکس میں ہوئی۔ راولپنڈی ٹیسٹ کے دوسرے روز ہی وہ کرکٹ میں دلچسپی کھو چکے تھے اور انہوں نے مجھے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ مجھے اب اس بورنگ میچ کے لیے روز سٹیڈیم آنا چاہیے یہاں اس سے کہیں زیادہ دلچسپی رکھنے والی چیزیں موجود ہیں۔‘
میں نے ان کو راولپنڈی شہر کا دورہ کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کی اور ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز طے پایا کہ ہم اندرون راولپنڈی کا دورہ کریں گے۔
’پنڈی بوائے‘ اور ’برگر بوائے‘ میں فرق
اسلام آباد سے راولپنڈی کی طرف جاتے ہوئے ابھی ہم مری روڈ پہنچے ہی تھے کہ اینڈریو میکلین برجستہ بولے کہ اب مجھے اندازہ ہوا کہ پنڈی بوائے اور برگر بوائے میں فرق کیا ہے۔
’یہ دیگر ایشیائی ممالک کے شہروں کی طرح ہی ہیں جہاں بے ہنگم ٹریفک ہے، گاڑیوں کا شور ہے، تنگ گلیاں اور جگہ جگہ کھانوں کے ٹھیلے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اسلام آباد کی ‘کلاس‘ تھوڑی مختلف ہے، یہاں لوگ شام کو کیفیز میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں، باہر بیٹھ کر چائے یا کافی پینا ان کا مشغلہ ہے اور شام ڈھلتے ہی شہر ویران ہو جاتا ہے۔‘
انڈریو اپنا مشاہدہ بیان کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ تصویریں بناتے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔
پانچ دنوں میں سات ہزار سے زائد فالوورز
اینڈریو نے بتایا کہ جب وہ پاکستان آئے تو وہ ٹوئٹر بالکل استعمال نہیں کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کی زیادہ تر سرگرمیاں فیس بک یا انسٹا تک ہی محدود تھیں۔
’میں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ چار برسوں سے استعمال ہی نہیں کیا، جب پاکستان آیا تو میں نے اپنی کچھ پوسٹس فیس بک اور انسٹا پر لگائیں لیکن مجھے کچھ زیادہ رسپانس نہیں ملا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک روز مجھے اچانک خیال آیا اور میں نے پاکستان میں ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹویٹس کیں جن کا مجھے بہت اچھا رسپانس ملا اور اس کے بعد میں نے ٹوئٹر استعمال کرنا شروع کر دیا اور چند دنوں میں میرے فالوورز 250 سے 7 ہزار تک پہنچ گئے۔‘

ٹوئٹر کے بارے میں اپنا مشاہدہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ٹوئٹر کو بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور میں نے ایسے اکاؤنٹس بھی دیکھے ہیں جن کے فالوورز 100 سے بھی کم ہیں لیکن وہ خود کو سوشل میڈیا انفلوئنسر کہتے ہیں جو میرے لیے حیران کن ہے۔‘
راجا بازار اور کرتارپورہ کا دورہ
راجا بازار پہنچنے پر گاڑی کی پارکنگ ڈھونڈنا بھی ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے۔ پارکنگ پلازہ میں غیر منظم پارک گاڑیاں دیکھ کر وہ برجستہ بولے ’یہ گاڑی پارک کرنے کا پنڈی سٹائل ہے۔‘
راجا بازار میں کھیڑیوں اور چپلوں کی دکان کے باہر لٹکتی کھیڑیاں بھی ان کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا لمحہ تھا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے فوراً جیب سے موبائل نکالا اور تصاویر بنانا شروع کر دیں۔
مختلف ڈیزائن کے پشاوری چپل دیکھ کر اینڈریو نے اپنے لیے ایک جوڑا خریدنے کا فیصلہ کیا تو دکان دار نے انہیں ’کپتان چپل‘ پیش کی۔
کپتان چپل کے ساتھ جڑی عمران خان کی کہانی جاننے کے بعد انہوں نے ’کپتان چپل‘ ہی خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی جو انہیں راقم نے تحفتاً خرید کر دے دی۔

راجا بازار میں گھومتے ہوئے اینڈریو کو مختلف رنگوں کی ویسٹ کوٹس نظر آئیں اور انہوں نے سبز رنگ کی ویسٹ کوٹ خریدنے کا فیصلہ کیا۔
جب میں نے انہیں نیلی رنگ کی ویسٹ کوٹ پہنے کے لیے کہا تو بولے ’یہ پاکستان کا رنگ ہے جب مجھے سبز رنگ مل رہا ہے تو میں نیلا رنگ کیوں خریدوں گا۔‘
کرتارپورہ کے تکے اور چپلی کباب
راجا بازار کے بعد اینڈریو کے ساتھ ہم نے کرتار پورہ کا دورہ کیا، کرتارپورہ بازار میں چپلی کباب کی تھال دیکھ کر وہ رک گئے اور انہوں نے حیرت سے پوچھا یہ کوئی برگر تیار ہو رہا ہے؟
دکان دار نے ابلتے ہوئے تیل سے گرما گرم کباب پلیٹ میں ڈالا اور انہیں کھانے کے لیے پیش کر دیا۔ ’میں نے ایسی چیز اپنی زندگی میں دیکھی نہ کھائی، یہ انتہائی لذیذ تھا۔‘
جب انہوں نے پیسے دینے کے لیے اپنا بٹوہ نکالا تو دکان دار نے کہا ’نو منی، آپ مہمان ہیں، اِٹس فری۔‘
