دنیا نیٹ فلکس او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر تجربات کر رہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی سنسر بورڈ کی چُھری اور اس کا کوڈ آف کنڈکٹ فلموں کی نمائش کی راہ میں رکاوٹ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
حال ہی میں زی فائیو پر نمائش پذیر ہونے والی ویب سیریز ’مسٹر اینڈ مسز شمیم‘ چلائی گئی اس کنسیپٹ کو پہلے لوکل ٹی وی چینلز کے ساتھ ڈسکس کیا گیا لیکن ’موضوع بولڈ ہے‘ کہہ کر رد کر دیا گیا، پھر اسی موضوع کو کسی دوسرے ملک کے پلیٹ فارم پر چلایا گیا جہاں یہ ویب سیریز کافی سراہی جا رہی ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ ہم کب تک کسی بھی فلم کی نمائش کو یہ کہہ کر روک سکتے ہیں کہ سنسر بورڈ کا کوڈ آف کنڈکٹ اجازت نہیں دیتا۔ اسے یقیناً جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کچھ تھوڑا بہت تبدیل کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستانی فلم ’زندگی تماشا‘ کا فیصلہ پارلیمان کرے گی‘Node ID: 464271
-
’جاوید اقبال، ان ٹولڈ سٹوری آف سیریل کلر‘Node ID: 597121
-
عرفان خان کے ساتھ رابطے میں نہ رہنے پر افسوس ہے: صبا قمرNode ID: 651326
فلم ’زندگی تماشا‘ کو دو سال قبل نمائش سے روکا گیا جبکہ بعدازاں ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ اور ’جاوید اقبال‘ کو نمائش سے روکا گیا۔
ایسا وقت جب سینما اور فلمی صنعت کی بحالی بے حد ضروری ہے دنیا دیگر پلیٹ فامزپر جا چکی ہے ہم فلموں کی نمائش کو مختلف عذر پیش کرکے روک رہے ہیں۔موضوع کی مناسبت سے اردو نیوز نے سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کے چیئرمین ارشد منیر سے گفتگو کی۔
ارشد منیر نے بتایا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم فلم ’زندگی تماشا‘ کو سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں اور کافی عرصہ قبل دے چکے ہیں، جہاں تک فلم ’جاوید اقبال‘ کی بات ہے تو ہم نے کبھی اس کو نمائش سے نہیں روکا۔ ہمارے پاس جب یہ فلم آئی تو ہم نے اس کو ری ویو کرنا تھا۔ اس سے قبل پنجاب اور سندھ کے سنسر بورڈز نے اس کو پاس کر دیا تھا اور بعد میں اپنا فیصلہ واپس بھی لے لیا، لہٰذا ان کے اس فیصلے کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارا ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے ہمیں اسی کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ فلم کی نمائش کو روکنا یا نہ روکنا کسی ایک فرد کا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ پورے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ ممبران سول سوسائٹی سے ہوتے ہیں یہ سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی فلم کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت نمائش کے لیے پیش کی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔
نیٹ فلکس اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز بالکل موجود ہیں، اگر کوئی وہاں کچھ جا کر دیکھنا چاہتا ہے تو دیکھے ہم نے روکا تو نہیں ہے ہم تو اپنی معاشرتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے فلم کو نمائش کی اجازت دیں گے۔

ہمارے ہاں کبھی کسی موضوع کو نہیں روکا گیا ہر موضوع پر فلم بنانے کی اجازت ہے بس دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ پیش کرنے کا انداز کیا ہے جس انداز سے پیش کیا جا رہا ہے اس سے عوام کو کیا میسج جا رہا ہے۔
فلم ’جاوید اقبال‘ میں کوئی میسج نہیں ہے ایک ظالم انسان کو بجائے یہ دکھانے کے کہ وہ اپنے کیے پر شرمند ہو، اسے گلیمرائز کیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ارشد منیر نے کہا کہ ’کوڈ آف کنڈکٹ کو ریوائز کرنے کی یقیناً گنجائش موجود ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ ہم ہر روز کوئی نہ کوئی فلم سنسر کر رہے ہیں، انڈیا کی نو دس پنجابی فلموں کو نمائش کی اجازت دی ہے لیکن آپ دیکھیں کہ سینما امپورٹڈ فلموں کے سر پر چل رہا ہے، ہم تو سینما کی بحالی کے لیے جتنا کام کر سکتے ہیں کر رہے ہیں لیکن لوکل پروڈیوسر کو فلمیں بنانی چاہییں۔

نمائش سے روکی جانے والی فلم جاوید اقبال کے ڈائریکٹر ابو علیحہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک لطیفہ ہی ہے کہ فلم میں دیکھنے والوں کے لیے کوئی میسج نہیں ہے۔ سنسر بورڈ کو فلم میں اگر کوئی چیز غلط لگ رہی ہو تو اس کو روکا جا سکتا ہے یہ اختیار یقیناً سنسر بورڈ کے پاس ہے لیکن سنسر بورڈ والے کسی بھی فلم میکر کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس طرح کی فلم بنائے۔
ان کے مطابق ’پوری دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ فلم بنانے سے پہلے سنسر بورڈ یا گورنمنٹ کو سکرپٹ دکھایا جائے، پنجاب اور سندھ سنسر بورڈز نے ہماری فلم کو پاس کر دیا لیکن بعد میں اپنے فیصلے پر کھڑے نہیں رہ سکے۔ وفاقی سنسر بورڈ نے تو سیدھا ہی کہہ دیا کہ ان کو فلم سمجھ میں ہی نہیں آئی، چلیں اتنا کہنا ان کا حق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب سنسر بورڈ نے فلم کو پاس کیا لیکن پنجاب گورنمنٹ نے اس کو نمائش سے روک دیا کیوں روکا یہی جاننے کے لیے ہم ہائیکورٹ چلے گئے۔‘
