پاکستان کی سیاست جہاں ہر بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبروں کا بازار بھی گرم ہے۔
وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب میں وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف بھی ایک محاذ گرم ہے۔ لیکن یہاں جو کچھ بھی پک رہا ہے وہ ہلکی آنچ پر ہے، سب کی نظریں وفاق پر لگی ہوئی ہیں۔
ایسے میں سوشل میڈیا پر لوگ اس طرح کی خبریں بھی پھیلا رہے ہیں کہ شاید وزیر اعلیٰ پنجاب نے مستقبل کو بھانپتے ہوئے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے گھر کا سامان اٹھانا شروع کر دیا ہے۔
ان خبروں کی حقیقیت جاننے کے لیے وزیر اعلیٰ آفس جانا ہوا تو وہاں سب کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا تھا۔ کسی بھی طرح کی افراتفری یا غیر معمولی حالات کا شائبہ تک نہیں تھا۔
مزید پڑھیں
-
صرف نیوٹرل کے لفظ سے ’ایک شخص‘ کی ہوا اُکھڑ گئی: مریم نوازNode ID: 654636
وزیر اعلیٰ آفس میں ان کا تمام سٹاف روٹین کے اپنے کاموں میں مصروف تھا البتہ ماحول میں ایک پراسرار خاموشی محسوس کی جاسکتی تھی جس کو نہ تو کوئی نام دیا جا سکتا ہے نہ ہی اس پر تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
البتہ وزیر اعلیٰ آفس کی انتظامیہ نے بتایا کہ سامان منتقل کرنے کی بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔
ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس بات میں اس لیے بھی کوئی صداقت نہیں کہ وزیر اعلیٰ ہاوس میں ضرورت کی ہر چیز پہلے ہی موجود ہوتی ہے۔ کسی بھی وزیر اعلیٰ کو کچھ بھی باہر سے نہیں لانا پڑتا سوائے انتہائی ذاتی استعمال کی چیزوں کے۔‘
ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب حسان خاور سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’اس طرح کی خبریں ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہیں ان کا سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔‘
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پیر کے روز صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ اجلاس 90 شاہراہ پر منعقد ہوا تو بظاہر اس کا ایجنڈا جنوبی پنجاب سمیت دیگر صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینا تھا۔

وزیر اعلیٰ آفس نے اس اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا جس کی تحریر میں البتہ تھوڑی بہت اجلت کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ جس میں کہا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ نے ترقیاتی کاموں پر کام کی رفتار مزید تیز کرنے کی ہدایت کی۔ جبکہ کئی پراجیکٹس سے متعلق ضروری امور طے کر کے 31 مارچ سے قبل سفارشات وفاق کو بھجوانے کی بھی انہوں نے ہدایت کی۔‘
اجلاس کی ایک اور غیر معمولی بات یہ بھی تھی کہ اس میں جہانگیر ترین گروپ کے وزرا دکھائی نہیں دیے۔ خیال رہے کہ ترین گروپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیر کے روز تک استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ جبکہ وزیر اعلیٰ نے اسی روز کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ نے یہ اجلاس اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بلایا تھا تاکہ ان کا استعفیٰ مانگنے والوں کو ایک پیغام جائے۔
پاکستان میں سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس موجودہ سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت حکومت کمزور سیاسی پچ پر ہے۔ وفاقی حکومت کے خلاف او آئی سی سے پہلے ایک بڑی مہم چلائی گئی کہ وزیراعظم عدم اعتماد کی کارروائی کی کلنک لے کر اس اجلاس میں بیٹھیں جس سے ان کے قد کاٹھ میں کمی واقع ہو۔ اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں وزیراعلیٰ پر اسی وقت ہی دباؤ بڑھایا گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت اب اس کو او آئی سی کے بعد تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک بات اور بھی طے ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جو بھی ہو گا ایک ہی طرح کا ہوگا۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نہیں رہیں گے تو وزیراعلیٰ پنجاب کا رہنا بھی مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے ابھی تک پنجاب کا محاذ چالو نہیں کیا۔ ابھی تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش اور گروپ بندی ہی وزیر اعلیٰ کو کمزورکرنے کے لیے کافی ہے۔‘
