Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عثمان بزدار وزیر اعلیٰ ہاؤس سے اپنا سامان منتقل کر رہے ہیں؟

عثمان بزدار نے پیر کو صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ فوٹو: سی ایم آفس پنجاب
پاکستان کی سیاست جہاں ہر بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ خبروں کا بازار بھی گرم ہے۔
وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب میں وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف بھی ایک محاذ گرم ہے۔ لیکن یہاں جو کچھ بھی پک رہا ہے وہ ہلکی آنچ پر ہے، سب کی نظریں وفاق پر لگی ہوئی ہیں۔ 
ایسے میں سوشل میڈیا پر لوگ اس طرح کی خبریں بھی پھیلا رہے ہیں کہ شاید وزیر اعلیٰ پنجاب نے مستقبل کو بھانپتے ہوئے اپنی سرکاری رہائش گاہ سے گھر کا سامان اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ 
ان خبروں کی حقیقیت جاننے کے لیے وزیر اعلیٰ آفس جانا ہوا تو وہاں سب کچھ معمول کے مطابق دکھائی دے رہا تھا۔ کسی بھی طرح کی افراتفری یا غیر معمولی حالات کا شائبہ تک نہیں تھا۔
وزیر اعلیٰ آفس میں ان کا تمام سٹاف روٹین کے اپنے کاموں میں مصروف تھا البتہ ماحول میں ایک پراسرار خاموشی محسوس کی جاسکتی تھی جس کو نہ تو کوئی نام دیا جا سکتا ہے نہ ہی اس پر تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
البتہ وزیر اعلیٰ آفس کی انتظامیہ نے بتایا کہ سامان منتقل کرنے کی بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔
ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس بات میں اس لیے بھی کوئی صداقت نہیں کہ وزیر اعلیٰ ہاوس میں ضرورت کی ہر چیز پہلے ہی موجود ہوتی ہے۔ کسی بھی وزیر اعلیٰ کو کچھ بھی باہر سے نہیں لانا پڑتا سوائے انتہائی ذاتی استعمال کی چیزوں کے۔‘ 
ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب حسان خاور سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’اس طرح کی خبریں ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ ہیں ان کا سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔‘ 
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پیر کے روز صوبائی کابینہ کا اجلاس طلب کر رکھا تھا۔ اجلاس 90 شاہراہ پر منعقد ہوا تو بظاہر اس کا ایجنڈا جنوبی پنجاب سمیت دیگر صوبے میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لینا تھا۔ 

وزیراعلیٰ نے دس دنوں میں 200 اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کیں۔ فوٹو: اے ایف پی

وزیر اعلیٰ آفس نے اس اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا جس کی تحریر میں البتہ تھوڑی بہت اجلت کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ جس میں کہا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ نے ترقیاتی کاموں پر کام کی رفتار مزید تیز کرنے کی ہدایت کی۔ جبکہ کئی پراجیکٹس سے متعلق ضروری امور طے کر کے 31 مارچ سے قبل سفارشات وفاق کو بھجوانے کی بھی انہوں نے ہدایت کی۔‘ 
اجلاس کی ایک اور غیر معمولی بات یہ بھی تھی کہ اس میں جہانگیر ترین گروپ کے وزرا دکھائی نہیں دیے۔ خیال رہے کہ ترین گروپ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیر کے روز تک استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ جبکہ وزیر اعلیٰ نے اسی روز کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ نے یہ اجلاس اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بلایا تھا تاکہ ان کا استعفیٰ مانگنے والوں کو ایک پیغام جائے۔ 
پاکستان میں سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس موجودہ سیاسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت حکومت کمزور سیاسی پچ پر ہے۔ وفاقی حکومت کے خلاف او آئی سی سے پہلے ایک بڑی مہم چلائی گئی کہ وزیراعظم عدم اعتماد کی کارروائی کی کلنک لے کر اس اجلاس میں بیٹھیں جس سے ان کے قد کاٹھ میں کمی واقع ہو۔ اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں وزیراعلیٰ پر اسی وقت ہی دباؤ بڑھایا گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت اب اس کو او آئی سی کے بعد تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’ایک بات اور بھی طے ہے کہ وفاق اور پنجاب میں جو بھی ہو گا ایک ہی طرح کا ہوگا۔ اگر وزیر اعظم عمران خان نہیں رہیں گے تو وزیراعلیٰ پنجاب کا رہنا بھی مشکل ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن نے ابھی تک پنجاب کا محاذ چالو نہیں کیا۔ ابھی تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش اور گروپ بندی ہی وزیر اعلیٰ کو کمزورکرنے کے لیے کافی ہے۔‘

وزیر اعلیٰ آفس نے سامان منتقل کرنے سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پنجاب کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن وفاق سے پہلے پنجاب پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے رازداری کی شرط پر اردو نیوزکو بتایا ’پنجاب کے بارے میں ہم بالکل بھی فکر مند نہیں ہیں۔ سب کچھ تیار ہے۔ اگر عدم اعتماد لانی ہے تو اس کی بھی تیاری مکمل ہے۔ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وفاق میں عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد بزدار خود ہی استعفی دے دیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی اپنی جماعت کے اندر بنے ہوئے دھڑے ان کے لیے کافی ہیں۔ اصل مسئلہ بزدار کو ہٹانے سے زیادہ اس کے بعد کی صورت حال ہے۔ اس لیے ہماری جماعت کا سارا فوکس وفاقی حکومت ہے۔ کیونکہ پنجاب کا سیاسی منظرنامہ اسی سے جڑا ہے۔‘ 
عثمان بزدار اپنے خلاف جاری اس محاذ آرائی کا مقابلہ خود ہی کر رہے ہیں۔ ان کے آفس سے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا گیا کہ ’وزیر اعلیٰ نے دس دنوں میں 200 اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ جن میں ترین اور علیم گروپ کے ایم پی ایز بھی شامل ہیں اور سب نے وزیر اعلیٰ کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔‘ 
اس بیان میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ ہم خیال گروپ کے اراکین وزیر اعلیٰ سے مل رہے ہیں البتہ نہ تو ان کے نام ظاہر کیے گیے اور نہ ہی ان کی تصاویر جاری کی گئیں۔

شیئر: